عام طور پر میرے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ جب تک میری باری آتی ہے۔ موضوع گھس پٹ کر دُور نکل جاتا ہے۔ بقول منیر نیازی‘ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی۔ میں ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔ پھر ہمارے عصر کے عظیم ادیب مشتاق احمد یوسفی نے بھی تو کہا ہے کہ کالم کی زندگی صرف ایک دن کی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے بھی بہت ہی دلچسپ اور فکر انگیز معاملات اسلئے قلم زد نہ ہو سکے..... کہ میرا مختص دن نکل گیا تھا۔ لیکن آج سوچا ہے کہ کچھ عرض کر ہی دوں۔ بحث تو بڑی دلچسپ شروع ہو گئی ہے۔ ہم نے وہ معرکتہ الاراء دارالخلافی کالم نہیں پڑھا۔ مگر اس کے ردِعمل کے طور پر جو چنگاریاں اُڑی ہیں وہ ہم تک بھی پہنچی ہیں۔ خاص طور پر 92نیوز کے معاصر کالم نگاروں نے بہت مدلل اور معتبر تجزئیے پیش کئے ہیں۔ ہم نے نہ تاریخ گھول کر پی رکھی ہے۔ اور نہ جغرافیے کو ناپنے کا فیتہ بغل میں دبائے رکھتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی اہل قلم کی حیثیت سے سماجیات وعمرانیات کے حوالوں سے کچھ جائزے پیش کرنے کی جسارت ہو سکتی ہے۔ میرا تبصرہ اسلئے محض مشاہداتی ہوگا کہ میری مادری زبان پنجابی ہے۔ اور میری پدری زبان سرائیکی ہے۔ ننہال لاہور کے ہیں۔ دوھیال بہاولپور ڈویژن میں پھیلے ہیں۔ مَیں بہاولپور میں پیدا ہوئی۔ سسرال گجرات کا نصیب ہوا۔ سارے بچے لاہور میںپیدا ہوئے۔ لاہور ہی کی ادبی اور سماجی زندگی کا حصہ بن گئی۔ سرائیکی اور پنجابی کے سنگھم سے اُردو نے جنم لیا۔ اور میں نے تینوں زبانوں میں ناول لکھے۔ آپ نے بھی سُنا ہوگا کہ بہت سے تجربہ کار اور ذی عقل انسان ہمیشہ کہتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو باہر سے کوئی خطرہ نہیں۔ باہر کی دُنیا کو پاکستان بہت بڑا نظر آتا ہے۔ پاکستان کو ہر قسم کا خطرہ اندر سے ہے۔ پاکستان کے بکے ہوئے دشمن اور بدخواہ پاکستان کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پنجاب کو بھی باہر سے کوئی خطرہ نہیں۔ پنجاب کو نقصان پہنچانے والے‘ جوق درجوق پنجاب کے اندر بیٹھے ہیں۔ وہ پنجاب کی ٹانگ کھینچ کر اپنی نام نہاد دانشوری کو تڑکا لگاتے رہتے ہیں۔ ان کی باتوں سے خوشبو کی جگہ بدبو ہی نکلتی ہے___ انہوںنے خود پنجابیوں کے لطیفے بنا رکھے ہیں۔ اور محفلوں میں سنا کر پنجابیوں کی بھد اُڑاتے ہیں۔ میں لفظ کوفی کی وجہ تسمیہ‘ تشریح‘ تاویل یا تعبیر سے قطع نظر کچھ مشاہدات پیش کرتی ہوں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خاں کے خلاف جو احتجاجی تحریک شروع کی تھی اس کا آغاز لاہور سے کیا تھا۔ بعدازاں پورا پنجاب ان کے احاطے میں آ گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا سچی بات ہے۔ مجھے توکوئی سیاسی یا سماجی شعور نہیں تھا مگر میرے شوہر کے دوست جو سندھ اور کراچی سے اکثر ہمارے گھر آتے تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کا بہت مذاق اُڑاتے تھے۔ جب وہ وزیراعظم بن گئے۔ تو وہی سندھی دوست آکر کہا کرتے تھے۔ یار! یہ پنجابی لوگ عجیب ہیں جس شخص کو ہم نے اپنے شہر میں گھاس تک نہیں ڈالی ‘ پنجابیوں نے اسے وزیراعظم بنا دیا۔ (یہ فقرہ کسی کی دلآزاری کے لئے نہیں لکھا معذرت چاہتی ہوں) اس زمانے میں یہ مقولہ بن گیا تھا کہ جس سیاسی شخصیت کوپنجاب میں پذیرائی حاصل ہو جاتی ہے وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔ اسکی تصدیق یوں ہوتی گئی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد‘ بینظیر صاحبہ‘ ان سے پہلے اور بعد آنے والے سب سیاسی لیڈر پنجاب سے پذیرائی حاصل کرنے کے لئے لاہور کی چٹانوں پر بصورت شاہین بسیرا لیتے رہے ہیں اور آجکل ان مقاصد کے لئے زرداری صاحب بمع فرزند ارجمند تشریف لاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پنجاب بادشاہ گر ہے اور آداب شاہی بھی سکھاتا ہے۔ پنجاب وسیع القلب اور روشن دماغ ہے۔ ٹیلنٹ کو پہچانتا ہے۔ بلاامتیاز صوبہ وعلاقہ سر آنکھوں پر بٹھا لیتا ہے۔ دُور تک اور دیر تک ساتھ دیتا ہے مگر جب اس کے اعتماد کو ٹھیس لگتی ہے تو جلسے جلوسوں کو رخ موڑ دیتا ہے۔ پنجاب کا ردِ عمل بروقت اور شدید ہوتا ہے۔ بناتا ہے تو بگاڑتا بھی ہے۔ ہر قوم اور قبیلہ اپنے اندر مثبت اور منفی عادات وروایات رکھتا ہے۔ پنجاب منافق نہیں ہے اور کینہ پرور بھی نہیں ہے۔ یہاں لوگ دل میں زہر نہیں رکھتے۔ جذباتی حد درجہ کے ہیں۔ رسک لیتے ہیں۔ چیلنج کرتے ہیں۔ چیلنج قبول کرتے ہیں۔ منہ پر دے مارتے ہیں۔ حماقتیں درجہ اول کی کرتے ہیں۔ مگر گھر بلا کر دھوکا نہیں دیتے۔ باقی رہا حملہ آوروں والا الزام‘ ستر سال سے تو اندر ہی سے حملہ ہو رہا ہے۔ اور پاکستان بننے کے بعد رشتوں ناتوں کے ذریعے ساری نسلیں باہم ہو گئی ہیں۔ کوئی علاقہ کوئی صوبہ کوئی قبیلہ جزیرہ نہیں رہا..... رشتوں ناطوں سے ایک اور حقیقت سامنے آئی۔ شادی کے بعد مجھے ایک عرصہ کراچی میں رہنے کا موقع ملا۔ میں نے دیکھا کہ بہت سی حیدرآباد دکن‘ ویلی‘ بریلی اور دیگر شہروں کی خواتین کی شادیاں پنجابی مردوں سے ہوئی تھیں۔ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ لوگ پنجابی شوہروں سے خوش ہیں۔ تو اُن سب کا جواب یہی تھا۔ پنجابی شوہر بہت دھیان رکھنے والے ہوتے ہیں۔ بچہ پیدا ہو جائے تو بیوی کے غلام ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ زیادہ تر پنجابی بیویاں اپنے شوہروں سے دُکھی دکھائی دیتی ہیں۔ جب مجھے ملک سے باہر جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں بھی میں نے دیکھا کہ پنجابی شوہروں کو پسند کیا جاتا ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں مَیں اسکی تفصیل میں نہیں جاؤنگی۔ جب میں قومی اسمبلی کی رکن تھی تو ایک بہت ہی محترم سندھی سابق وزیر نے مجھے کہا۔ میں اپنی بیٹی کی شادی پنجاب میں کرنا چاہتا ہوں۔ میری راہنمائی کریں۔ میںحیران ہوئی کہ آپ اتنے بارسوخ سندھی وڈیرے ہیں۔ آپ کو بھلا وہاں رشتوں کی کیا کمی ہو گی۔ وہ بولے! پنجابی شوہر بہت اچھے ہوتے ہیں۔ چلئے اب ایک اور زاوئیے سے بات کرتے ہیں۔ میں دس سال قومی اسمبلی کی رکن رہی ہوں۔ وہاں پہ میں نے دیکھا کہ پنجابیوں کو خوب گالیاں پڑتی ہیں۔ پنجاب کی طرف منہ کر کے ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔ میں یہاں اُن لوگوں کے نام نہیں لکھونگی ورنہ سب سمجھ جائیں گے۔ کیونکہ یہ سارے صوبوں کے سارے لوگوںپر الزام نہیں ہے۔ صرف چند شخصیات کی منافرت ہے۔ پر لطف بات یہ کہ تمام ارکان پنجاب گالیاں کھا کے بے مزہ نہیں ہوتے۔ کبھیکوئی کسمسایا تو لیڈروں نے سمجھایا۔ تم بڑے بھائی ہو۔ تم نے پاکستان کو جوڑے رکھنا ہے۔ برداشت کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی پنجابی لیڈر نے الیکٹرانک میڈیا پر آکر پاکستان کو گالی نہیںدی۔ سنتے رہتے ہیں یہ طنز ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے دو قومی نظریے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ قائداعظم کی امانتوں کو سنبھالنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ علامہ اقبال کو قومی شاعر کہنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ خانہ کعبہ سے صدا بلند ہو۔ کشمیر کے دل سے آہ نکلے۔ فلسطین پکارے‘ روہنگیا کے مسلمان دلدل میں جا گریں..... انہوں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ بیت المقدس کا معاملہ ہو..... آواز بلند کرنے کا‘ سڑکوں پر نکل آنے کا‘ جھنڈے لہرانے کا___ دیوانہ ہی کچھ کر جاتا ہے۔ فرزانے تو سوچتے رہ جاتے ہیں۔ ایک درد ناک بات سناؤں جس زمانے میں بلوچستان کے اندر پنجابیوں کو بیدردی سے قتل کیا گیا تھا اور پاکستان کے جھنڈے کو آگ لگائی گئی تھی (کسی بد بخت نے) ہماری پوری اسمبلی میں صرف بہاولنگر کے علی اکبر وینس اُٹھے تھے۔ چلا چلا کر بولے تھے اور چیخ چیخ کر روئے تھے کہ ان معصوم پنجابیوں کا کیا قصور تھا جنہیں کسی اور کے گلے شکوے میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ ساری اسمبلی میں سناٹا چھایا رہا۔ سب پنجابی ارکان بت بنے بیٹھے رہے۔ جب رو رو کر علی اکبر وینس بیٹھ گئے۔ تو میں نے اپنے ڈیسک کا بٹن دبایا۔ سپیکر صاحب نے میری طرف دیکھا۔ میں کھڑی ہو گئی۔ فرمایا! آپ اسی موضوع پر بولنا چاہتی ہیں۔ میں نے عرض کیا۔ جی حضور! تو سبھاؤ سے بولے۔ بس ان کا موقف ریکارڈ پر آ گیا ہے۔ اب اس بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ تو کیا ان بدنصیبوں کے آنسو پونچھنے کی ضرورت بھی نہیں جن کے پیارے قتل ہو گئے۔ بیٹھ جائیے محترمہ! سپیکر صاحب نے میرا مائیک بند کر دیا___! چپ ہوں تو کلیجہ جلتا ہے بولوں تومیری رسوائی ہے ایک بار صحافیوں اور ریجنل پریس کے ایڈیٹروں کے وفد میںمَیں نیپال گئی ہوئی تھی۔ ان دنوں میں ایک رسالہ ’’وطن دوست‘‘ نکالتی تھی۔ ظاہر ہے اس وفد کے اندر ساتوں ملکوں کے صحافی ایڈیٹرز اور تجزیہ نگار بھی شامل تھے۔ اس روز سارے وفد کو گوتم بدھ کے مندر دکھانے کے لئے ایک بس میں لے جایا جا رہا تھا۔ اتفاق یہ کہ پاکستان کے وفد میں چاروں صوبوں کے صحافی مرد تھے۔ پنجاب سے میں اکیلی عورت تھی۔ آپ تو جانتے ہیں ان وفود کے اندر اکثر انڈین اور پاکستانی مندوب بہت دوستانہ ماحول بنائے رکھتے ہیں۔ ہماری بس کے اندر سندھ کے ایک بہت مشہور کالم نگار بھی بیٹھے تھے۔ (نام لکھنا مناسب نہیں) یکایک انہوں نے پاکستان اور پنجاب کو رگیدنا شروع کر دیا۔ اور پنجاب پر ایسے ایسے زٹیل حملے کئے جس سے انڈین کے لئے تفریح طبع کا سامان پیدا کرنے لگے۔ اس وفد میں انڈیا کے اس اخبار کے ایڈیٹر بھی موجود تھے۔ جن کے اخبار میں میرے ناول قسط وار چھپا کرتے تھے۔ میں اندر ہی اندر ایک کرب سے گذر رہی تھی مگر چپ بیٹھی تھی۔ مجھے خاموش دیکھ کر وہ ایڈیٹر صاحب بولے۔ بشریٰ جی! ویسے تو آپ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی ہیں۔ اس وقت پنجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آپ سنتی جا رہی ہیں اور مسکراتی جا رہی ہیں۔ میں نے برجستہ کہا___ ’’یہی پنجاب کا رول ہے۔ جو میں اس وقت ادا کر رہی ہوں‘‘ باقی ساری واہ واہ میرے حصے میں آگئی۔ چپ ہوں