میاں نواز شریف اور اُن کی پارٹی نے اپنے ’’خیالی بیانیہ‘‘سے جیسے ہی یوٹرن لیا،بہت سارے لوگوں کو چودھری نثارعلی خان کی یادستانے لگی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اُس وقت پی ایم ایل این چودھری نثارعلی خان کے مشوروں پر عمل کرتی تو آج شہبازشریف ملک کے وزیرِ اعظم ہوتے اور میاں نوازشریف جیل جاتے نہ بیمار پڑتے۔واقعی!چودھری نثارعلی خان کی سیاسی بصیرت بلنددرجہ کی تھی اور میاں نواز شریف نے اُن کے مشوروں پر عمل نہ کرکے اپنا اور پارٹی کاسیاسی نقصان کیا؟اس کے لیے چودھری نثارعلی خان کے طرزِ سیاست کا جائزہ لینا ازحد ضروری ہے۔ اُنیس سوپچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔اُنیس سوپچاسی سے دوہزار اَٹھارہ کے الیکشن تک یہ مختلف وزارتوں کے قلمدان ان کے پاس رہے۔ دوہزار تیرہ کے انتخابات میں وفاقی وزیرِ داخلہ کے اہم منصب پر فائزرہے۔ان کی سیاسی زندگی میں دوہزار تیرہ سے دوہزار سترہ تک وفاقی وزیرِ داخلہ رہنا ،بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس عرصہ میں چودھری نثار علی خان کا کردار اُلجھے ہوئے ، متذبذب اور اَناپرست سیاستدان کا رہاہے۔ایک ایسے ملک میں جہاں ،داخلی چیلنجز گمبھیر اور متنوع ہوں،وہاں ان کا وزیرِ داخلہ ہونا، کتنا دُرست تھا؟اِن کااپناصرف ایک بیان ملاحظہ کریں؛ستائیس جولائی دوہزار پندرہ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے ،اِنہوں نے کہا تھا ’’ پونے دوماہ سے نوازشریف(اُس وقت کے وزیرِ اعظم) سے ملاقات نہیں ہوئی‘‘یاد رہے کہ چوبیس جولائی کو لاہور میں ایک بڑا دہشت گردی کا واقعہ رُونما ہوا تھا،اُس وقت معصوم عوام یہ سوچ رہے تھے کہ سیاسی قیادت دہشت گردی کے مزید واقعات کی روک تھام کے لیے سرجوڑ کر منصوبہ بندی کررہی ہوگی۔لیکن وہ ٹی وی کی سکرین پر آئے اور کہا’’ وزیرِ اعظم سے اُن کی ملاقات پونے دوماہ سے نہیں ہوئی ‘‘اُس وقت کے وزیرِ اعظم سے وزیرِ داخلہ کی ملاقات کیوں نہیں ہوپارہی تھی؟جہاں اس کی بنیادی وجہ مسلم لیگ ن کی طرزِ حکمرانی تھی،وہاں اِن کی متذبذب اور اَنا پرست شخصیت کا گہر اعمل دخل بھی تھا۔چودھری نثار علی خان کابطور وزیرِ داخلہ اور سیاسی رہنما کے نمایاں طورپر تین طرح کا رویہ اس عرصہ میں سامنے آیا۔اول:ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے تناظر میں۔ دوم:پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے ہونے والی لڑائیوں۔ سوم: اپنی پارٹی قیادت سے ناراضی اور فاصلے کا۔ اول:چودھری نثار علی خان تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کے حامی تھے۔کراچی ایئرپورٹ کا واقعہ آٹھ جون دوہزار چودہ کو رُونما ہواتواُس وقت تک دہشت گردوں سے مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا، اس دوران دیگر دہشت گردی کے واقعات بھی ہوتے رہے۔کراچی ایئرپورٹ کے واقعہ کے فوری بعد پاک فوج نے بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔چودہ جون کو ضربِ عضب شروع ہوا۔اِن کی وزارتِ داخلہ کے عرصہ کی پریس کانفرنسوں کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ ان کا اہتمام ذاتی نوعیت کی صفائیاں پیش کرنے کے لیے کیا جاتا رہاہے۔اِن کے وزیرِ داخلہ کے دَور میں پنجاب میں دہشت گردی کے پے دَرپے واقعات ہوئے،لاہور لہولہان ہوتارہا،پھر پاک فوج کو پنجاب میں آپریشن کا فیصلہ کرنا پڑا۔ یہ ہمیشہ کہتے رہے کہ ملک میں داعش کا کوئی نام و نشان نہیں ،مگرپاک فوج نے آپریشن خیبر فور کا پندرہ جولائی دوہزار سترہ میں آغاز کیا اور اکیس اگست دوہزار سترہ کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس کی آپریشن کی کامیاب تکمیل کا اعلان کیا۔جسٹس فائز قاضی عیسیٰ کی رپورٹ میںدرج یہ بات کہ وزارتِ داخلہ (وفاقی و صوبائی وزارتِ داخلہ) کو قیادت میسر ہے اور نہ ہی اُس کی سمت متعین ہے،بہت اہمیت کی حامل تھی۔اس ضمن میں وفاقی وزیرِ داخلہ کا دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد کا ردِعمل ،ثابت کرتا تھا کہ وزارتِ داخلہ کے منصب کیلئے پی ایم ایل این کی جانب سے موزوں انتخاب نہیںکیا گیا تھا۔ دوم:جس وقت پارٹی کو اِن کی ضرورت پڑتی،اُس وقت یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ دست وگریباں ہوتے نظر آتے ۔ چودھری اعتزاز احسن کی دھرنے کے دِنوں میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وہ تقریر کیسے نظر انداز کی جاسکتی ہے ،جس میں اُنہوں نے چودھری نثارعلی خان پر حدسے زیادہ تنقید کی تھی۔اُس وقت مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کی سیاسی مدد کی اشد ضرورت تھی کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک ،دھرنے کی صورت حکومت پر دبائو ڈالے ہوئے تھیں۔لیکن وزیر داخلہ ذاتی لڑائیوں میں اُلجھے پائے گئے۔علاوہ ازیں ،اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر نے میاں نواز شریف کو کئی بار مخاطب ہو کر کہاتھا کہ میاںصاحب! آپ نے آستین کے سانپ پال رکھے ہیں۔ اُس عرصہ میں بلاول بھٹو زرداری نے کئی بار اِن کے خلاف اعلانِ جنگ بھی کیا۔ سوم:اُ س عرصہ میں وہ پارٹی کے اندر بھی محاذ آرائی کی سیاست میں اُلجھے ہوئے نظر آئے۔اندرونی پارٹی کی فضا کچھ اس انداز کی رہی کہ یہ دوسرو ںسے اور دوسرے اِن سے نالاں رہے۔ اس تناظر میں پرویز رشید کھل کر باتیں بھی کرتے تھے ،جواب میں اِن کی طرف سے ہمیشہ کی طرح پریس کانفرنس کی جاتی۔ حتیٰ کہ اگر پارٹی کا کوئی رہنما ٹی وی پر بیٹھ کر اِن کے بارے ایک آدھ جملہ کہہ دیتا تو وزارتِ داخلہ برہم ہو اُٹھتی اور ترجمان کا بیان آجاتاتھا۔ اس وقت جب بہت سارے تجزیہ کاروں کو اِن کی یادستارہی ہے تو یہ تنہا اپنے راولپنڈی کے گھر میں خاموش وقت گزارتے پائے جارہے ہیں۔ان کے بچے برطانیہ اور امریکا میں تعلیم پارہے ہیں ،ان کی بیگم بیٹیوں کے ساتھ لندن میں ہے۔انتخابی حلقوں میں الیکٹ ایبلز تصور کیے جانے والے یہ دوہزار اَٹھارہ کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کے بغیر میدان میں اُترے ، دونوں سیٹوں پر ہا ر گئے ، اب انتظار کھینچ رہے ہیں کہ کچھ پی ایم ایل این کے رہنما ،ان کے اندازِ سیاست سے متاثر ہو کر اِن سے آملیں اور یہ قیادت کریں۔سیاست میں امکانات موجود رہتے ہیں ،دیکھنا یہ ہے کہ چودھری نثارعلی خان کو مزید کتنا انتظار کھینچناپڑتاہے؟