خیبر پختونخوا کے علاقے بشام میں چینی انجنیئروں کی گاڑی پر خود کش حملے میں ایک خاتون سمیت پانچ چینی باشندے اور ان کا پاکستانی ڈرائیور جاں بحق ہوگئے ہیں۔ چینی انجنیئروں پر حملے کی اب تک کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ پاکستان اور چین دونوں نے اسے دہشتگردی کا واقعہ قرار دیا ہے۔ پاکستان نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے ۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وزیر داخملہ محسن نقوی چینی سفارت خانے پہنچے اور چینی سفیر سے قیمتی جانوں کے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔وزیر اعظم نے اعلیٰ سطح پر معاملے کی تحقیقات کرانے اور ذمہ دار عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا اعلان کیا۔عینی شاہدین کے بقول چینی انجنیئروں کی گاڑی کھائی میں گِرنے سے مکمل تباہ ہو گئی جبکہ جائے وقوعہ پر خود کش حملے میں استعمال دوسری گاڑی کے بھی حصے بکھرے پڑے تھے۔ دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ حملہ آوروں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا جبکہ اسلام آباد میں چینی سفارتخانے نے ایک بیان میں پاکستان سے اس حملے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا ہے کہ چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں ۔واضح رہے کہ چین پاکستان میں 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں مختلف منصوبوں کے ذریعے سڑکیں، ڈیم، پائپ لائن اور بندرگاہ پر کام جاری ہے۔ 2013 میں اپنے آغاز کے بعد سے، چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) نے بڑے پیمانے پر ٹرانسپورٹ، توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں دسیوں ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔لیکن اس منصوبے کی مالی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان عسکریت پسندوں کے چینی اہداف پر حملوں سے بھی متاثر ہوا ہے۔ اپنے آغازکے ایک دہائی کے بعد سی پیک نے ملے جلے نتائج دکھائے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کو بحیرہ عرب سے ملانے کا بنیادی ہدف ابھی بھی چین کے لئے دور ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے مختصر مدت کے مقاصد کے حصول میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔حالیہ برسوں میں چین پاکستانکے سب سے قابل اعتماد غیر ملکی شراکت داروں میں سے ایک رہا ہے، چین اپنے اکثر مشکلات کے شکار پڑوسی کے لیے آسانی سے مالی مدد فراہم کرتا ہے۔ حال ہی میں چین نے پاکستان کو 2.4 ارب ڈالر کے قرض پر دو سال کا رول اوور دیا ہے، جس سے قرضوں میں جکڑے ہوئے ملک کو سانس لینے کا موقع ملا ہے۔پاکستان اس رقم سے ادائیگیوں کے توازن کا معاملہ کچھ مدت تک ٹالتا آ رہا ہے۔گزشتہ سال آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں بتایاگیا تھا کہ چین اور اس کے کمرشل بینکوں کے پاس پاکستان کے کل بیرونی قرضوں کا تقریباً 30 فیصد حصہ ہے۔دونوں ممالک قراقرم پہاڑوں میں سیاچن گلیشیئر کے قریب 596 کلومیٹر طویل سرحدی اشتراک رکھتے ہیں، جو دنیا کے بلند ترین سلسلوں میں سے ایک ہے۔داسو میں حالیہ حملہ پاک چین تعاون کی شکل بگاڑنے کی کوشش نظر آتا ہے ۔2021 میں بھی داسو منصوبے کے قریب چینی انجنیئروں کی بس پر حملہ ہوا تھا۔اس وقت کارروائی کو پاکستان اور چین میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے جوڑا گیا تھا۔ اس حملے میں نو چینی شہریوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے جس پر دو ملزمان کو سزائے موت بھی سنائی گئی تھی۔داسو وہ مقام ہے جہاں پاکستان اور چین کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ڈیم کی تعمیر کا کام جاری ہے اور یہ اس مقام پر ہونے والا دوسرا حملہ ہے۔ڈیم بننے کی صورت میں پاکستان کو سستی بجلی اور آبپاشی کے لئے پانی کی دستیابی بڑھ جائے گی۔پاکستان بین الاقوامی سٹریٹجک تبدیلیوں کی وجہ سے بد امنی ، سیاسی انتشار اور بسا اوقات سفارتی مشکلات کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ تاحال دو ایسے گروہ سامنے آئے ہیں جو پاکستان میں چینی حکام کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔پہلا گروہ وہ بلوچ شدت پسند ہیں جو سمجھتے ہیں کہ چینی تعاون سے پاکستان کی حکومت بلوچ آبادی کے وسائل پر کنٹرول کر رہی ہے۔دوسرا گروہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ ہے۔کئی بار یہ دونوں تنظیمیں پاکستان کے خلاف اتحاد کر لیتی ہیں۔ اپریل 2022 میں ایک خاتون خودکش بمبار نے خود کو کراچی یونیورسٹی کے چینی سینٹر کے سامنے اڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں تین چینی اساتذہ ہلاک ہوئے تھے۔اس حملے کے بعد ہی بتایا گیا کہ سی پیک کے منصوبوں کو کچھ وقت کے لیے روک دیا گیا ہے جبکہ جن منصوبوں پر تاحال کام جاری ہے ان پر افرادی قوت کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پاکستان اور چین کے درمیان تعمیر و ترقی کو مستقبل کی ضروریات سے ہم آہنگ رکھنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔پاکستان کی عسکری قیادت اور ادارے اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔دہشت گرد عناصر کے خلاف مسلسل آپریشن جاری ہیں ۔سی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک بہت اہم حصہ ہے جس کی بنیاد سنہ 2013 میں مسلم لیگ ن کے دور میں رکھی گئی تھی۔’ون پلس فور‘ کہلائے جانے والے اس منصوبے میں ون سی پیک کو کہا جاتا ہے اور چار اس کے تحت منصوبے ہیں جن میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہیں۔چینی انجنیئر ، ٹیکنیشن اور محنت کش پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ان پر حملہ کرنے کا مطلب پاکستان میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکنا، چین کے ساتھ اختلافات پیدا کرنا اور ریاست پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔حکومت کو چینی ہنر مندوں کا تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو خراب کرنے میں مصروف عناصر کا خاتمہکرنا ہوگا تاکہ آزمودہ دوست کے ساتھ مل کر مستقبل کی تعمیر کا کام جاری رکھا جا سکے۔