آئینی اور انتظامی طور پر چین میں یک جماعتی نظام قائم ہے۔نام کی حدتک تین چار پارٹیاں اور بھی ہیں مگر ملک میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی پرولتاری لیڈر شپ کا ہی راج ہے۔کمیونزم یعنی اشتراکی نظام کا انہدام تو ساری دنیا میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا۔خود چین نے بھی سوویت کمیونسٹ ماڈل سے جان چھڑانے کے بعد ساری دنیا میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے بجائے خالصتاً چینی ماڈل کی اشتراکی ریاست کی پالیسی پر 80ء کی دہائی سے خود کو گامزن کردیا تھا اور اس کا ایک بڑا سبب ماؤزے تنگ کا وہ ثقافتی انقلاب بھی تھا جو ایک دہائی کی ہنگامہ خیزی کے بعد ایک المناک انجا م سے دوچار ہوا۔ثقافتی انقلاب کے دوران ماؤ کے چین میں عوام پر کیسے کیسے ستم ڈھائے گئے ۔ ۔ ۔ آزادی کی خاطر جد وجہد کرنے والے پارٹی کے کمٹڈ کیڈر کو کس طرح جبر و استبداد سے گذرنا پڑا،ایک عرصے تک، باہر کی دنیا میں ایک عرصے تک اس پہ پردہ پڑا رہا۔کمیونسٹ چین کے بانی ماؤزے تنگ کے بعد دوسری بڑی شخصیت چو این لائی کی تھی جنہوں نے خو د کو ثقافتی انقلاب کی ہنگامہ خیزی سے دور رکھا۔اور پھر طویل بیماری کے بعد جب ان کا انتقال ہوا تو اُن کی تدفین کے موقع پر ایک ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہواجس سے باہر کی دنیا کو علم ہوا کہ ماؤ کے سخت گیر کمیونسٹ چین کی ریاست میں ایسی دراڑیں پڑنی شروع ہوگئی ہیں جو خود چیئر مین ماؤ کی موت کے بعد اُن کے نظریئے کو بھی دفن کردے گی۔مشکل ہورہا ہے کہ ایسی ہنگامہ خیز تاریخ کو جو دہائیوں پر محیط ہے چند سطروں میں سمیٹوں ۔مگر مجبوری یہ ہے کہ ایک تو اشتراکی چین کی تاریخ لکھنے کے لئے اتنا علم اور آگاہی ہو پھر زیادہ تحقیق اور تفصیل میں جا کر کالم کو بوجھل بھی نہیں کرنا چاہتا۔اپریل 1976ء میں وزیر اعظم چو این لائی کی موت کے بعد جو 20لاکھ چینی سارے ملک سے تیئن مین اسکوائر میں جمع ہوئے۔وہ محض سوگواروں کا اجتماع نہ تھابلکہ انقلابی چین کے 27سال بعد یہ لاکھوں مشتعل اور مضطرب مظاہرین ایک نئے چین کی بنیاد رکھ رہے تھے۔اس نئے جدید اشتراکی چین کی قیادت وزیر اعظم چو این لائی کے دست راست ڈینگ ژاؤپنگ کر رہے تھے جو پورے ثقافتی انقلاب کے دوران معتوب رہے۔ثقافتی انقلاب کے سرخیل گینگ آف فور ڈینگ کو کمیونسٹ پارٹی کے تمام اہم عہدوں سے ہٹانے کے بعد اُن کی جان کے در پے بھی تھا۔مگر گینگ آف فور محض اس لئے باز رہا کہ چیئر مین ماؤزے تنگ ،ڈینگ ژاؤپنگ سے نظریاتی طور پر متفق نہ ہونے کے باوجود اُن کی علمیت اور پارٹی کے نچلے کیڈر میں اُن کی بے پناہ مقبولیت کے قائل بلکہ اُس سے خائف تھے۔ڈینگ کو ثقافتی انقلاب کے دوران نظر بند کیا گیاتو تمام عہدوں سے ہٹائے جانے کے باوجود چیئر مین ماؤ نے اُن کی پارٹی ممبر شپ برقرار رکھی اور پھر شاید یہی ان کی زندگی کی ضمانت بھی بن گئی۔گینگ آف فور جس کی قیادت چیئر مین ماؤ کی بیگم جی آنگ چنگ کررہی تھیں۔اس بات سے آگاہ تھیں کہ جب تک ڈینگ زندہ ہیں۔اُن کا ٹولہ اقتدار پر مکمل قبضہ نہیں کرسکتا۔چینی انقلاب کی تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اگر ماؤزے تنگ اور وزیر اعظم چو این لائی کے انتقال کے بعدڈینگ ژاؤپنگ پارٹی کمان نہ سنبھالتے تو آج کے جدید چین کا وجود ہی نہیں ہوتا ۔آج چین دنیا کی سب سے بڑی یا دوسری بڑی معیشت ہے۔چین کی درآمدی تجارت 24ٹریلین ڈالر پر پہنچی ہوئی ہے جبکہ آئندہ برسوں میں یہاں 2ٹریلین ڈالر کی بر اہ راست سرمایہ کاری کا امکان ہے ۔جدید چین نے یہ سفر صرف 25 برسوں میں کیا ہے۔قوموں کی زندگی میں اور پھر خاص طور پر معاشی طور پر اس مقام تک پہنچنے میںنصف کیا پوری صدی بھی کم ہوتی ہے۔کسی اور ملک کیا خود وطن عزیز کی مثال سامنے ہے۔۔۔کہ 70سال بعد اس بد قسمت قوم نے آگے کے بجائے معاشی میدان میں الٹا سفر کیا ہے۔22کروڑ کی قوم آج 36کھرب کی مقروض ہے۔ عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں یہ لیجئے ،چینی انقلاب کی تاریخ میں ایسا بھٹکا کہ 14سے 19اکتوبر کا سفرِ چین راستے ہی میں رہ گیا۔پانچ دن صبح9بجے سے شام6بجے تک ہمارے میزبانوں نے سخت مشقت کی۔شام چھ بجے کے بعد۔۔۔ شام آئی تو یہ سمجھو کہ پری آئی ہے شام کی تفصیل میںزیادہ نہیں جاؤں گاکہ عندلیبوں کی آہ و زاریاں کہیں آسمان سر پہ نہ اٹھا لیں۔ ہائے کیا لوگ تھے کیا بستی تھی ایک دن بھی نہ گھر یاد آیا چین بنیادی طور پر ایک زرعی ملک تھا۔چینی انقلاب روس کے مقابلے میں کسانوں کی قیادت میں برپا ہوا۔ماؤزے تنگ کی قیادت میں The Great Long Marchبلاشبہ ایک ایسا تاریخ ساز واقعہ ہے جس کی دنیا کے انقلابات میںدوسری مثال نہیں ملتی ۔اس لانگ مارچ کی کامیابی کے بعد چیئر مین ماؤ نے اقتدار تو سنبھال لیامگر نہ تو اس سے اگلے بیس برسوں میں کروڑوں کسانوں کی زندگی میںکوئی انقلاب آیا اور نہ ہی بد ترین غربت کاخاتمہ ہوا۔ماؤزے تنگ کی رحلت کے بعد ڈینگ ژاؤپنگ کی قیادت میں نئے چینی انقلاب سے پہلے ساری فصل سرکار کو چلی جاتی تھی۔کسانوں کو براہ راست اپنی فصل مارکیٹ میں فروخت کرنے کی اجازت نہیںتھی۔جس کے سبب اُن کی آمدنی محض پیٹ پوجاتک تھی۔سن1978ء کے بعد کسانوں کو حق دیا گیا کہ وہ خود ہی مارکیٹ میں اپنی فصل فروخت کرسکیں ۔۔۔ساتھ ہی انہیں ہر طرح کے زرعی ٹیکسز سے آزاد کردیا گیا۔اس بڑے انقلابی اقدام کے فوری نتائج بھی سامنے آنے لگے۔اور حقیقی معنوں میں ان کی زندگی میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔مگر آج کے جدید،مستحکم چین کی ترقی اور خوشحالی کا سبب وہ چینی امیگرینٹ تھے جو 50ء اور60ء کی دہائی میں وطن چھوڑ کر ترقی یافتہ غیر ممالک میں جابسے تھے ۔اورجواپنی محنت اور ذہانت سے کروڑ پتی بلکہ ارب پتی بن گئے۔ ڈینگ ژاؤپنگ اور ان کے بعد آنے والی قیادت نے غیر ممالک جا بسے ہم وطنوں کو پر کشش مراعات ،تحفظ دے کر وطن آنے پر مجبور کردیا۔اور یہی جدید چین کی مضبوط معیشت میں ریڑھ کی ہڈی بن گئے۔ہمارے چار دن کے قیام میں چین کے سرکردہ میڈیا منیجروں سے جو میٹنگیں ہوئیںاُس میں اسکرینوں اورپررعب اعداد و شمار سے جو بریفنگ دی گئی اس کی تفصیل ایک کالم کی تو متحمل نہیں ہوسکتی ۔بہ زبان ِ اردو ’’غربت مٹاؤ ادارے‘‘ کے سربرا ہ اس بات کا اعتراف کررہے تھے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے کے باوجود اب بھی تین کروڑ چینیوں کو غربت سے اوپر کی لکیر پر نہیں لا سکا۔ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کا اس وقت ایک عام آدمی اوسط آمدنی کا پیمانہ 1.95ڈالر ہے جبکہ چین میں یہ اسٹینڈرڈ2.29ڈالر ہے۔گو ورلڈ بینک یہ تسلیم کرتا ہے کہ ہم چالیس سال میں 85کروڑ چینی عوام کو غربت کی سطح سے اوپر لے آئے ہیں۔مگر خود ان کی حکومت اس سے کم یعنی 75کروڑ چینی عوام کو غربت کی نچلی سطح سے نکالنے کی دعویدار ہے۔بیجنگ سے شنگھائی کے چار گھنٹے کے سفر میں جو تیز رفتار ،آرامدہ بلٹ ٹرین میں ہوا۔جگمگاتی ،بلند و بالا بلڈنگوں ،فلائی اوورزاور شاہراہوںپر جدید گاڑیوں میں خوش وخرم چینیوں کو زندگی کی دوڑ میں بھرپور شراکت دار دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ چند برس بعد یہ صدی چین کی ہے۔