افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر پاکستان کی ہئیت مقتدرہ کے کنفیوزڈ بیانات پڑھ کر حفیظ جالندھری مرحوم یاد آتے ہیں ؎ ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں ‘توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے بجا کہ ہم دودھ کے جلے ہیں‘ ہمیں چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینی چاہیے‘ مگر احتیاط کے شوق میں اپنی عمر بھر کی کمائی لٹا دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟افغان طالبان ایک ایسی سیاسی اور عسکری حقیقت ہیں جسے امریکہ اور نیٹو نے تسلیم کر لیا‘ دو طرفہ مذاکرات میں اشرف غنی‘ عبداللہ عبداللہ اور کابل کے کسی دوسرے حکمران کو دو حہ کے قرب و جوار میں نہ پھٹکنے دیاکہ مذاکرات کے عمل پر ان کٹھ پتلی حکمرانوں کا سایہ نہ پڑے‘ اگر امریکہ کٹھ پتلی حکمرانوں کو حقیقی نمائندہ اور حکمرانی کے اہل سمجھتا تو اپنے وفد میں کسی ایک کی شمولیت پر اصرار کرتا‘ بگرام ایئر بیس کے راتوں رات انخلا سے کابلی حکمرانوں اور افغانستان کے سکیورٹی ادروں کو لاعلم رکھنے کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ سپر پاور کو اپنے وظیفہ خواروں پر اعتبار نہیں‘ ایران ‘ترکمانستان ‘روس اور چین حتیٰ کہ بھارت بھی طالبان سے رابطے استوار کر رہے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ مگر اب تک طالبان اور اشرف غنی حکومت کو ایک پلڑے میں تول رہی ہے‘ بار بار یہ اعلان ہو رہا ہے کہ افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں اور طالبان کٹھ پتلی حکومت کا حصہ نہ بنے تو خانہ جنگی کا شدید خطرہ ہے۔ بعض دانا تو افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو ایک ہی سکّے کے دو رخ قرار دے کر اس خوف کا شکار ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوتے ہی پاکستان میں مذہبی دہشت گردی کی نئی لہر شروع ہو گی اور مسلکی فسادات کا عفریت ملک کے طول و عرض میں دندناتا نظر آئے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا اللہ بھلا کرے‘پہلی بار انہوں نے یہ کہہ کر حقیقت حال کی ترجمانی کی ہے کہ افغان طالبان بدل چکے ہیں اور وہ بندوق کے زور پر نہیں مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے اقتدار سنبھالنا چاہتے ہیں‘ ایران ‘ روس اور ترکمانستان میں اعلیٰ طالبان وفد کی سرکاری سطح پر پذیرائی اور افغانستان کے شمال میں فتوحات سے عیاں ہے کہ یہ ہمسایہ ممالک اور ازبک وتاجک شناخت کے حامل گروہ طالبان کو مستقبل کا حکمران سمجھ کر محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کی پالیسی پر گامزن ہیں اور افغانستان میں قیام امن کے لئے انہی پر بھروسہ کرنے کے خواہش مند‘ طالبان نے بھی دانش مندی کا ثبوت دیا ‘ ابھی تک اپنے مفتوحہ یا مقبوضہ علاقوں میں مختلف مسلکی‘ لسانی اور نسلی گروہوں سے تعرض نہیں کیا‘ کٹھ پتلی حکومت کی فوج کے جن اہلکاروں نے ہتھیار ڈالے ‘انہیں سزائیں دینے کے بجائے مہر و مروت کا سلوک کیا گیا‘ کچھ کو زاد راہ دے کر گھروں کو بھیجا گیا اور بہت سو ںکو پھولوں کے ہار پہنا کر اپنے لشکر کا حصہ بنا لیا گیا‘ میری اطلاعات کے مطابق ہتھیار ڈالنے والے بیشتر فوجی افغان آرمی میں بھرتی ہی افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت کے اشارے پر ہوئے تھے اور اب بھی وہ نہ صرف خود رضا کارانہ طور پر ہتھیار ڈال رہے ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ انہیں اندیشہ ہائے دوور دراز کا شکار ہوئے بغیر طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر امارات اسلامی کے قیام و استحکام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ امریکی حکومت اور افغان آرمی کی تشکیل و تربیت پر مامور حکام اگر انہیں پہچان نہ پائے تو یہ ان کا اپنا قصور ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق طالبان اور عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے مابین رابطے جاری ہیں‘ واخان کی پٹی پر واقع اہم شہر پر صرف چار طالبان نے قبضہ کر کے سب کو چونکا دیا ہے‘ اس پٹی کی اہمیت کے پیش نظر طالبان قیادت کو اُمید ہے کہ چینی حکومت کا طرز عمل دوستانہ اور مفاہمانہ ہو گا۔ طالبان بھی سنکیانگ کے حوالے سے ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کا عزم رکھتے ہیں۔ طالبان کی آمد پر فرار ہو کر ایران‘ تاجکستان اور ترکمانستان پناہ لینے والے افغان نیشنل آرمی کے اہلکاروں کو ان ممالک کی حکومتوں نے طالبان کے حوالے کر دیا ہے اور فاتحین نے ان فوجیوں سے دشمنوں کے بجائے دوستوں جیسا سلوک کیا ہے۔یہی اُمید طالبان قیادت حکومت پاکستان سے کرتی ہے کہ وہ بھی پناہ لینے والے افغان فوجیوں اور سرکاری اہلکاروں کو اشرف غنی حکومت کے بجائے طالبان کے حوالے کرے۔ قندھار اور دیگر شہروں میں بھارتی قونصل خانوں کی شرارتوں اور افغان ایئر فورس کے پاس موجود تین بھارتی بمبار طیاروں کی موجودگی سے افغان طالبان واقف ہیں۔ بھارتی حکومت اسی باعث دوحا‘ ماسکو اور ایران کے توسط سے طالبان قیادت کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات کے لئے مری جا رہی ہے‘ بھارت افغانستان کی تباہی میں برابر کا حصے دار ہے‘ پہلے وہ سوویت یونین کے اتحادی کے طور پر مختلف گماشتہ کمیونسٹ حکمرانوں کا دست و بازو بنا رہا۔9/11کے بعد وہ امریکہ اور شمالی اتحاد کے کندھوں پر سوار ہو کر کابل ‘ قندھار اور ہرات کے سفارتی دفاتر کے ذریعے دہشت گردی‘ تخریب کاری اور دیگر عوام دشمن کارروائیوں میں شریک رہا‘ قندھار میں اسلحہ کی سپلائی کا مقصد بھی خانہ جنگی کی راہ ہموار اور افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کرنا تھا‘ جس کا طالبان کو ادراک نہیں تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انہیں تمام تر تفصیلات سے آگاہ کریں‘ مگر ہمارے فیصلہ ساز مسلسل ایک ہی لکیر پیٹ رہے ہیں کہ اگر طالبان کابل پر قابض ہوئے تو افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گا اور پاکستان نئے مہاجرین کی میزبانی پر مجبور‘ دہشت گردی کی نئی لہر کا اندیشہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان بیانات کو افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت تو شاید سفارتی و سیاسی مجبوریوں کا شاخسانہ قرار دے کر نظر انداز کر دے مگر مشرف دور کے پاکستانی کردار سے ناراض دوسرے درجے کے قائدین اور کمانڈروں کا ردعمل کیا ہو گا؟ یہ سوچنے کی شاید کسی کو فرصت نہیں‘ روس‘ چین ‘ ایران‘ ترکمانستان اور تاجکستان طالبان سے خائف نہیں‘ مذاکرات اور مفاہمت میں مشغول ہیں بھارت تک موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے کوشاں‘ مگر ہم عجیب طرح کی کنفیوژن کا شکار ہیں۔1979ء سے 1994ء تک ہم نے مجاہدین کا ساتھ دیا‘ پھر طالبان کی سرپرستی کی‘ 9/11کے بعد ہم امریکہ کے خوف سے ’’سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کی پالیسی سے دستبردار ہوئے اور شمالی اتحاد و بھارت کے گٹھ جوڑ سے اُمیدیں وابستہ کیں‘ امریکہ خوش ہوا نہ شمالی اتحاد و بھارت مطمئن‘ حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کے طعنیسنے‘ امریکہ کو پسپائی کے ہنگام‘‘کوئٹہ شوریٰ یاد رہی نہ حقانی نیٹ ورک بُرا لگا‘ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو طالبان کے حوالے کر گیا کہ ’’سپر دم بتو مایہ خویش را تو دانی حساب کم و بیش را‘‘ ہم مگر فاتح اور مفتوح کے مابین غیر جانبداری کی ایکٹنگ کر رہے ہیں یہ اندر کا خوف ہے یا کچھ اور ؎ کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں‘ کہا تم اونٹ پر بیٹھو کہا کوہان کا ڈ ر ہے‘ کہا کوہا ن تو ہو گا کہا کابل کو جانا ہے‘ کہا کابل چلے جائو کہا افغان کا ڈر ہے‘ کہا افغان تو ہو گا