مکرمی! ٹریفک حادثات سے متاثرہ افراد کاعالمی دن آج منایا جا رہا ہے ۔ 19نومبر کو منائے جانے والے اس دن کا مقصد ٹریفک قوانین بارے میں لوگون کو آگاہی دیناہے۔ سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں حالانکہ ٹریفک قوانین کی پاسداری ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے ۔ہم ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے تو اسی وجہ سے ہر سال ٹریفک حادثات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حادثہ میں چھوٹی سی غلطی سے کئی معصوم اور بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اگر قانون پر صحیح طرح سے عمل کیا جائے تو حادثات کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ہمیں اپنی زندگی کی حفاظت کریں کیونکہ یہ اللہ کی امانت ہے اور اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اکثر ہماری غلطی کی وجہ سے کسی دوسرے کی جان چلی جاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ڈرائیور حضرات اپنی گاڑیوں کی ریس لگاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ٹریفک قوانین سے لاعلمی کے باعث ہم دوسروں کی زندگی بھی دائوپر لگا دیتے ہیں۔ میں اپنے قارئین کو افسوس کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں روڈ ایکسیڈنٹ کی شرح دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے جہاں اندازے کے مطابق ہر سال 25000 سے تیس ہزار افراد ٹریفک حادثات میں اپنی جان سے ہاتھ دھو دیتے ہیں اور ہزاروں افراد شدید زخمی اور مستقل طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔ صرف صوبہ پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 700 ٹریفک حادثات ہوتے ہیں، جن میں ہر روز اوسطاً آٹھ لوگ جاں بحق ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں ٹریفک قوانین کے جو آرڈیننس موجود ہیں ان میں سے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 شامل ہیں۔ یہ آرڈیننس ملک میں ٹریفک کا نظام منظم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے جو اب بہت پرانے ہو چکے ہیں۔ ان میں موجود اکثر و بیشتر قوانین کو لاگو ہی نہیں کیا جاتا اور یہ صرف ان آرڈیننس کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے 2020 کے لیے مرتب کیے گئے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سڑک حادثات میں 28,170 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، پاکستان میں پچھلے کئی سال کے دوران درآمد ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 250,000 ہے۔۔اگردیکھاجائے توآجکل سب سے زیادہ حادثے موٹرسائیکلوں کے ہورہے ہیں۔ (علی جان ،جوہرٹائون، لاہور)