قومی اتحاد ایک خواب بن چکاہے،یکجہتی اور یگانت جیسے الفاظ ہمارے ذہنوں اور لغات سے محو ہوتے جا رہے ہیں،ہم سب یہ تو چاہتے ہیں کہ ملکی حالات ٹھیک ہو جائیں ‘ معیشت بھی بہتر ہو جائے اور مہنگائی کا جِن بھی بوتل میں بند ہو جائے مگر ہماری حکومت اور اسٹیک ہولدرزکسی بھی اہم مسئلے پر بیٹھنے کو تیار نہیں‘تکبر اور انا نے ہمیں خودغرضی اور لالچ کی انتہا پرپہنچا دیا‘نہ سیاست دان متحدہیں اور نہ ہی قوم،ملکی استحکام اور معاشی خودمختاری پر کوئی بھی پیش رفت یگانت کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ پاکستان اس وقت انتہائی نازک وقت سے گزر رہا ہے‘اگر آج بھی ہم نے اپنی ذمہ داریاں نہ نبھائیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر اکٹھے نہ ہوئے تو یہ عوام بکھر جائیں گے‘ٹوٹ جائیں گے اور ان کو متحد کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ہم ایک عرصے سے اپنی قوم کو یہ سبق پڑھا رہے ہیںکہ ہمیں دشمن نے توڑا‘ہمیں شرپسند عناصر نے ایک نہیں ہونے دیا ‘ہماری ذہنی و معاشی کسمپرسی کی وجہ ہمارا دشمن ہے‘یہ بات کسی حد تک تودرست ہو سکتی ہے مگراپنی ساری تباہی اور حالات کی خستہ حالی کا ذمہ دار صرف دشمن کو کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ بیرونی سازشیں قوموں کی بربادی میں اپنا منفی کردار ادا کرتی ہیں مگرذہنی طور پر مضبوط قومیں اپنی غلطیوں کا ملبہ بھی دشمن پہ نہیں گراتیں بلکہ اپنا محاسبہ کرتی ہیں‘عظیم اور متحد قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پچھہتر سالوں میں نہ تو عظیم بن سکے اور نہ ہی متحد‘ایک ہجوم ہیں جس کی کوئی منزل نہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی و قومی نظریہ۔ ہمارے اسٹیک ہولڈرز نے ہمیں جو سبق پڑھایا‘ہم نے اسے سچ مان لیا‘کیا ایسی بنجر قومیں کبھی ترقی کرسکتی ہیںجن کی آنکھوں میں نہ کوئی خواب ہے اور نہ ہی اپنا نقطہ نظر،ایسی پس ماندہ قوموں میں اتحاد و یگانت ’فانوسِ خیال‘کے سوا کچھ نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ مہنگائی کی وجہ وہ سرمایہ دار ہے جس کے لیے اپنا بزنس اور سرمایہ‘ ہمیشہ قوم سے زیادہ اہم رہا ‘جب بھی پاکستان پر کڑا وقت آیا‘یہاں کے سرمایہ دار نے قوم کو اکیلا چھوڑ دیا اور ایک ایسا مصنوعی بحران کر دیا جس سے یہ تاثر دیا جانے لگا کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے اور خدانخواستہ ہمارے تمام اسٹیک ہولڈرز بھی اس قوم سے مخلص نہیںہیں‘کبھی چینی اور آٹے کا تو کبھی چکن اور پیاز کا بحران پیدا کیا گیا اور عوام کو ذلیل کرنے کا ہر حربہ استعمال کیاگیا۔ایسا اس لیے ہوا کہ ہم نے کبھی متحد ہو کرکوئی فیصلہ نہیں کیا ‘جب جب اس قوم کو ضرورت پڑی کہ قومی یکجہتی کا دامن پکڑا جائے‘ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا تاکہ ہم کہیں ایک قوم نہ بن جائیں۔آپ اندازہ کریں کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں مگر گندم ہم روس سے منگوا رہے ہیں‘اب سوال یہ ہے کہ ہمارے ذخیرہ اندوزوں نے یہ بحران کس کے کہنے پر پیدا کیا اور جن اسٹیک ہولڈرز کا نام لیا جا رہا ہے ان سے کون پوچھے گا؟اگرہمارا ذخیرہ اندوز گندم خیبر پختونخواہ اور پنجاب سے افغانستان بھیج رہا ہے تو یہ کس کافالٹ ہے؟اور یہاں یہ بھی بات زیر غور ہے کہ کیا ذخیرہ اندوز یہ کام بغیر کسی لائسنس یا این او سی کے کیسے کر سکتے ہیں؟ یقیں کریں!قومی اتحاد اور یگانگت وہ واحد رویہ ہے جس سے ایسے تمام عناصر کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے جنھوں نے ملکِ عزیز کو آج اس نہج پر پہنچا دیا کہ ہمارے بچے دو وقت کی روٹی کو ترس گئے‘اب وہ وقت آ پہنچا ہے جہاں سے آگے انقلاب کا راستہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ انقلاب ہمیشہ پِسا ہوا طبقہ لاتا ہے‘کیپٹلسٹ اور فیوڈل مافیاانقلاب کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ بنارہا‘یہ مافیا جانتا ہے کہ انقلاب ہمارے سارے گودام اور بینک بیلنس بہا لے جائے گا‘یہی وجہ ہے کہ ہمارے کارپوریٹ طبقے نے غریب کے لیے تعلیم اور شعورکے دروازے بند کیے رکھے‘معاشی کسمپرسی کاشکار طبقہ اگر تعلیم کی طرف آ گیا تو شعور آئے گا اور شعور ہی قوموں کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے نوازتا ہے۔ ہمیں ملکی تباہی اور کسمپرسی پر بات کرتے ہوئے بیرونی سازشوں کے علاوہ ان عناصر کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا جنھوں نے اندرونی سازشون سے ملک کو کمزور تر کیا‘اتحادی حکومت تو یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہم ڈیفالٹ کر چکے مگر ان کا کشکول بتا رہا ہے کہ ہم صرف بیرونی نہیں بلکہ اندرونی سازش کا بھی شکار ہو گئے‘ہمارا دشمن باہر بھی بیٹھا اور اندر بھی،ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ خارجی جنگ کے ساتھ ہمیں داخلی جنگ کیسے جیتنی ہے؟دشمن کا مقابلہ تو ہو سکتا ہے مگر منافق کا مقابلہ کیسے کریں؟اسی لیے اسلام نے منافق کو زیادہ خطرناک کہا ہے کیونکہ وہ دوستی اور ہمدردی کے لبادے میں وار کرتا ہے۔ اگر ہم موجودہ سیاسی‘آئینی اور معاشی بحران سے نکلنا چاہتے ہیںتو اس کا واحد حل صرف یہ ہے کہ ہم سب مل بیٹھیں‘حکومت اور اسٹیک ہولڈرز بھی اور ہمارا ذخیرہ اندوزی کرنے والا سرمایہ دار بھی،کیونکہ یہ تباہی صرف سیاست دانوں کی وجہ سے نہیں آئی‘اس کے پیچھے وہ لوگ بھی ہیں جو نفع میں تو پاکستان کے خیرخواہ ہوتے ہیں مگر نقصان کی صورت کی میں آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔لہٰذا ملکی تباہی کی ذمہ داری ان سب پر آتی ہے‘ملکی ادارے ہیں یا سیاست دان اور بیوروکرسی،سرمایہ دارہے یا ذخیرہ اندوز،یہ سب کہیں نہ کہیں موجودہ بحرانوں کے ذ مہ دار ہیں،ان سب کو ایک قوم بن کر سوچنا ہوگا۔ہمیں ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ورنہ جنیوا میں اس دفعہ تو نو ارب ڈالر کے اعلانات ہو گئے‘اگلی دفعہ ہمیں جنیوا میںکوئی میزبان بھی نہیںملے گا اور ہم ایسے ہی خالی کشکول لیے در در جا رہے ہوں گے اور کوئی ہمیں قبول نہیں کرے گا۔