کرونا وائرس نے، سیر اور سفر کو یوں محدود کیا ہے کہ بڑے بڑے جہاں گردوں کو بھی، گویا ہاتھ پائوں توڑ کر، گھر میں ڈال دیا ہے! اس خاکسار کی سراسر خوش بختی ہے کہ چند ہفتے قبل، کرہ ٔ ارض کے مبارک ترین مقامات کی زیارت نصیب ہو گئی۔ سید سلیمان ندوی کی عام شہرت سیرت ِنبویؐ کے مصنف اور اسلامی ادیب کی ہے۔ کم لوگ واقف ہیں کہ مرحوم، خوش گو شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر علمی حلقوں میں، خصوصاً بہت مقبول ہوا۔ ہزار بار، مجھے لے گیا ہے مقتل میں وہ ایک قطرہ ء خوں، جو رگ ِگلو میں ہے سید سلیمان ندوی مرحوم کا مضمون، کہنا چاہیے کہ مجھ پر بھی صادق آیا ہے۔ اسے’’قطرہ ء خوں‘‘ کہیے یا جذب و شوق، کشاںکشاں، یہ مجھے ایک بار پھر، ارض ِمقدس تک لے ہی آیا۔ دو سال پہلے، یہ خاکسار فلسطین اور اسرائیل پہلی بار آیا تھا۔ اس سر زمین کی بے پناہ جاذبیت نے، باور کرا دیا تھا کہ واپسی بھی ان شاء اللہ جلد ہو گی۔ اْس سفر میں، بیت المقدس، قبتہ الصخراء اور مسجد ِخلیل سے لے کر، حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰ ؑکے مراقد ِمبارک سمیت، دسیوں مقامات کی زیارت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ اب کی بار، ارادہ یہ تھا کہ مذہبی کے ساتھ ساتھ، جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کے حامل مقامات بھی دیکھے جائیں۔ سو گولان کی پہاڑیوں اور غّزہ تک جانے کا اردہ مصمّم تھا۔ الحمدللہ، ارادہ پورا ہو گیا۔ یہاں آنے والوں مسلمانوں کی پہلی مشکل یہ ہے کہ اسرائیلی ہر مسلمان زائر کو، شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ باپ دادا کو پہنچنے کا محاورہ، یہاں واقعہ بن جاتا ہے! امیگریشن افسر، والد اور دادا کا نام اور ان کی جائے پیدائش دریافت کرتے ہیں اور اسی سے فیصلہ کرتے ہیں کہ مسافر کو کتنا خوار کیا جائے! دنیا اب تک، دو عظیم جنگیں لڑ چکی ہے۔ دونوں ہی، عجیب ڈھب سے شروع ہوئی تھیں۔ لیکن تیسری جنگ ِعظیم کی بنیاد، کہنا چاہیے کہ پہلی جنگ کے دوران میں رکھ دی گئی تھی۔ انیس سو سترہ کا علان ِبالفور، ایک سو برس بعد بھی، فساد کی جڑ ہے۔ تخریب کی اس نِیو پر بنیادی سوال، علامہ اقبال نے، شاید سب سے پہلے اٹھایا تھا۔ ہے خاک ِفلسطیںپہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل ِعرب کا دوسری جنگ ِعظیم کے بعد، بغیر کسی تاریخی نظیر کے، ایک مْلک اس ڈھب سے قائم کر دیا گیا کہ آگے چل کر دنیا بھر کی تخریب کا مرکز بن گیا! جو پیمانہ یہودیوں کے لیے خاص طور سے وضع کیا گیا، اس کا اگر عام نفاذ ہو جائے تو امریکنوں اور آسٹریلویوں سمیت، کتنی ہی قوموں کو گھر سے بے گھر ہونا پڑے! اسرائیل، دراصل نتیجہ ہے صیہونیوں کی سازش اور شرارت کا۔ اس کام کے لیے انہوں نے، گانٹھا البتہ عیسائیوں کو ہے۔ غور کے لائق یہ بات ہے کہ تینوں ابراہیمی مذاہب، اپنی اصل سے، آج کتنی مطابقت رکھتے ہیں؟ ان تینوںکی تعلیمات میں، بنیادی نکتہ توحید کا اقرار تھا۔ لیکن ہوا کیا؟ کچھ تو فروعات اور بہت کچھ مزعومات میں، اتنے اور ایسے الجھے کہ ناموں کو ہادیوں کے، بے انتہا جھنجھوڑا یاروں نے بْت شکن کو، بْت ہی بنا کے چھوڑا بین الاقوامی ایئرپورٹ اسرائیل میں ایک ہی ہے۔ بانی ِاسرائیل کے نام پر، اسے ’’بِن گوریان‘‘سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہاں پر جو ’’تواضع‘‘متوقع تھی، وہ تو خیر ہوئی، مگر حیرت کا ایک واقعہ بھی پیش آیا۔ امیگریشن افسر نے کوائف دریافت کر کے، بڑے تاسف سے کہا کہ اب ایک احمقانہ مرحلے سے تمہیں گزرنا ہے، جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔ وہ مقامی اور نسلی یہودی تھا، سو اس کی دل جوئی نے، مجھے حیران کر دیا۔ اب "مرحلے" کی بھی سْن لیجیے۔ مسلمانوں کو، دوسروں سے ممتاز کر کے، علیحدہ بٹھا دیا جاتا ہے۔ وہاں سے پھر باری باری، ہر ایک کو انٹرویو کے لیے اٹھایا جاتا ہے۔ اس کام پر مامور عملہ، بہت تربیت یافتہ ہے۔ میرا انٹرویو جس لڑکی نے کیا، اصلاً وہ امریکن تھی۔ پوچھنے لگی کہ یہاں آنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس پر جی تو چاہا کہ پلٹ کر یہ سوال اسی پر داغ دوں کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور ہزار گنا زیادہ پْرسکون ملک کو چھوڑ کر، آپ تشریف یہاں کیوں لے آئیں؟ خیر، سوال و جواب کا سلسلہ، سوال پر سوال تک تو کیا جاتا، اپنی ہی خیر منائی اور کہا کہ یہاںدو سال پہلے بھی آیا تھا اور تب سے پر تولتا ہی رہا کہ دوبارہ بھی آئوں۔ پہلے دورے کے بعد، اپنے تاثرات میں نے ایک ڈاکومینٹری کی شکل میں پیش کیے تھے۔ دل میں یہ خدشہ قوی تھا کہ اگر اس لڑکی نے ڈاکومینٹری کی بابت سوال کرنے شروع کیے تو نتیجہ یہیں سے مراجعت کا نکلے گا۔ یہ ڈاکومینٹری، امریکا کے ایک اردو ٹی وی چینل کی بدولت، فیس بک پر تقریبا پونے دو لاکھ مرتبہ دیکھی جا چکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے ہر پاکستانی کی نظر سے گزارنے کی کوشش کی جاتی۔ لیکن طبعاً، میں سست بھی ہوں اور جن طریقوں سے اپنا ڈھول بجایا اور بجوایا جا سکتا ہے، نہ صرف ان سے واقف نہیں، بقول ِغالب، طبیعت بھی اس طرف نہیں آتی! کہنا چاہیے کہ ترکیب ِترقی، میں نہیں جانتا اکبر! جو جانتے ہیں، ان سے ملاقات نہیں ہے خیر، سوال جواب نے بہت طول نہیں کھینچا۔ انتظار اور پھر تفتیش سے فارغ ہونے میں، لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹا البتہ خرچ ہو گیا۔ پہلی بار، یاد ہے کہ یہاں آمد، ان دنوں ہوئی تھی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکن ایمبیسی یروشلم میں، چند ہفتے پہلے ہی کھْلوائی تھی۔ اس وقت لگتا یہ تھا کہ اب کی بار، مسلم ممالک، زبانی جمع خرچ سے بڑھ کر، کچھ عملی اقدام کریں گے۔ ممکن ہے کہ واقعی کرنا بھی چاہتے ہوں لیکن کسی سے بھی کچھ بن نہ پڑا۔ مسلمان حکمرانوںکی اسی نالائقی اور سہل انگاری نے، صیہونیوں کے حوصلے اَور بڑھا دیے ہیں۔ چند ماہ قبل، گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو امریکن توثیق حاصل ہو گئی۔ پھر اس سے بڑھ کر، یہودی آباد کاروںکے ظلم و زیادتی کو بھی، ٹرمپ انتظامیہ نے، جائز قرار دے دیا۔ صیہونیوں کا طریقہ ء واردات، کسی اَور نشست میں بیان ہو گا، لیکن یہاں ایک بار پھر داد، علامہ اقبال کو دیجیے، جو کہہ گئے ہیں۔ ع این بنوک، این فکر ِچالاک ِیہود یعنی، بینکنگ کا شعبہ اور اس کا تمام شر، یہودیوں کا پیدا کردہ ہے۔ یا یہ کہہ لیجیے کہ دل یا دماغ کے بجائے، اس قوم نے اپنی جگہ پیٹ کے رستے سے بنائی ہے!ا