پنجاب کے سابق وزیر رانا مشہود کے بیان سے لے کر تجاوزات کے خاتمے کی مہم تک ہر موضوع دامن کو حریفانہ کھینچتا ہے ؎ زفرق تابقدم ہر کجا کہ می نگرم کرشمہ دامن دل می کشد کہ جاایں جااست (سر کی مانگ سے پائوں تک جہاں بھی دیکھتا ہوں حسن سراپا دل کے دامن کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے) سیاسی تجاوزات کے خاتمے کی مہم دیر سے چلی مگر کامیابی کی طرف گامزن ہے کچھ قبضہ گیر قانون کی گرفت میں آ چکے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ رانا مشہود سے بہت دن گزرے ملاقات نہیں ہوئی ورنہ پوچھ لیتا کہ یہ بیٹھے بٹھائے آپ کو کیا سوجھی؟۔ دل مانتا نہیں کہ روا روی میںاس نے راز کی بات کہہ دی جس پر اپنے خفا ہوئے اور بیگانے ناخوش۔ شہنشاہ مفاہمت میاں شہباز شریف نے رکنیت معطل کر کے تفتیش کے لیے انکوائری کمیٹی بٹھا دی۔ بیان سے مسلم لیگ (ن) شریف خاندان اور رانا مشہود کو کیا فائدہ ہوا‘ ابھی تک کسی نے گنوایا نہیں۔ نقصان البتہ یہ ہوا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی کے بعد پراسرار خاموشی کو مفاہمتی ڈیل سے ملایا گیا۔ باپ بیٹی کا بیانیہ مزید مشکوک ٹھہرا اورانہیں مزاحمت کی علامت بنانے اور سمجھنے والوں نے اپنے آپ کو چٹکی کاٹی کہ ’’ہیں یہ ہم کیا سن رہے ہیں‘‘۔ جدہ جلاوطنی والے معاہدہ کی یاد تازہ ہو گئی۔ مخدوم جاوید ہاشمی بتایا کرتے ہیں کہ مجھے اسلام آباد میں شریف خاندان کی فوجی آمر سے ڈیل کی بھنک پڑی تو میں بھاگا بھاگا لاہور پہنچا‘ شریف ہائوس میں داخل ہوا تو برآمدے میں جگہ جگہ بڑے بڑے اٹیچی کیس پڑے دیکھے‘ ملاقات میں بیگم کلثوم نواز سے پوچھا کہ یہ سامان کیوں بندھا اور بکھرا پڑا ہے۔ بولیں ’’بہت عرصہ ہو گیا گھر کی صفائی نہیں ہوئی۔ صفائی اور اسے ہوا‘ دھوپ لگوانے کے لیے کمروں سے نکالا ہے‘ ‘میں نے اسلام آباد میں پھیلی افواہوں کا ذکر کیا تو کہا’’ آپ مسلم لیگ کے قائم مقام صدر اور ہمارے قابل اعتماد ساتھی ہیں‘ آپ کو اعتماد میں لیے بغیر بھلا کوئی قدم ہم اٹھا سکتے ہیں‘‘۔ مگر ایک دن پتہ چلا کہ پورا خاندان ان اٹیچی کیسوں سمیت جدہ روانہ ہو گیا۔ سید غوث علی شاہ نے گلہ کیا کہ میاں صاحب جہاز میں سیٹ خالی نہ تھی تو ہم کاریڈور میں بیٹھ جاتے‘ ہمیں یوں جیل میں بٹھا کر تو نہ چل پڑتے۔باقی سب ٹک ٹک ایک دوسرے کو دیکھا کئے۔ بدگماں عناصر کو شک ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز نے میاں شہباز شریف سے بالا بالا کوئی ڈیل کرنی چاہی مگر مسلم لیگ کے صدر نے اسے اپنے آپ پر بے اعتمادی سمجھا اور رانا مشہود کے ذریعے مزاحمتی سیاست کا بھانڈا پھوڑ کر کھیل بگاڑ دیا۔ بیان سے میاں شہباز شریف کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ وقتی طور پر سہی مقتدر اور فیصلہ ساز حلقوں میں ان کی رسائی اور مسلم لیگ میں ان کے بیانیے کی قبولیت کا تاثر ابھرا اور مسلم لیگ کی صوبائی اورمرکزی پارلیمانی پارٹی کے ارکان کو فی الحال پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ کا پیغام ملا۔ سازشی کہانیوں پر یقین رکھنے والوں کو اُمید پیدا ہوئی کہ آج نہیں تو کل شریف برادران کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کا باب وا ہو سکتا ہے اور وہی موجودہ حکومت کا نعم البدل ہیں‘ بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی نہیں۔ گزشتہ تیس سال سے سیاستدانوں کو وفاداری کا یقین دلا کر کرپشن کی بہتی گنگا میں اشنان کرنے والی بیوروکریسی ان سازشی کہانیوں کی سب سے بڑی خریدار ہے۔ کرپشن کے خلاف عمران خان کی جاندار مہم‘ میرٹ کی تکرار اور بہتر پرفارمنس پر اصرار سے خوفزدہ بیورو کریٹس کو اگر یہ تاثر ملے کہ اگلے دو ماہ میں میاں شہباز شریف کو باری ملنے والی ہے توانہیں قلم چھوڑ ہڑتال نہ سہی گو سلو کی پالیسی سے کون روک سکتا ہے۔ سو روزہ پلان کا بیڑا غرق کرنے کے لیے یہی کافی ہے رہی سہی کسر موجودہ حکومت کے جلد باز‘ بڑھک باز اور ناتجربہ کار وزیر‘ مشیر پوری کر دیں گے۔ میاں شہبازشریف مسلم لیگ ن کے بااختیار صدر بن کر وزیر اعظم ہائوس میں داخلے کے خواہش مند ضرور ہیں مگر وہ برادربزرگ کو پھلانگ کر اس منصب تک پہنچنے کے متمنی نہیں ‘یہ روایتی خاندانی وضعداری ہے یا کم ہمتی ؟ان کے حامی اور ناقدین مختلف کہانیاں سناتے ہیں تاہم میاں نواز شریف کے شترگربہ بیانئے اور مریم نواز شریف کے غیر دانشمندانہ طرز عمل کے مقابلے میں ان کی سوچ صرف حقیقت پسندانہ نہیں ملک و قوم اور خاندان کے مفاد میں بھی ہے۔ اپنی کمزوری اور اسٹیبلشمنٹ کی قوت و وسعت کا احساس بے وقوفی نہیں تقاضائے عقل و دانش ہے اور اس کا احساس چھوٹے میاں صاحب کو ہے تاہم رانا مشہود کے بیان پر سیاسی قوتوں بالخصوص مسلم لیگ ن اور پاک فوج کے شدید ردعمل نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ سیاسی اور جمہوری نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا یہ منصوبہ اپنی موت آپ مر گیا اور فوجی ترجمان کے دو ٹوک بیان سے سیاسی و پارلیمانی حلقوں اور بیورو کریسی کو یہ واضح پیغام ملا کہ سول ملٹری تعلقات میں کسی قسم کی دراڑ نہیں‘سیاسی عدم استحکام ناقابل قبول ہے اور مسلم لیگ ن کے علاوہ شریف خاندان کے لیے موجودہ ملکی ڈھانچے میں فی الحال اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے سوا کوئی گنجائش نہیں۔ جن خوش فہموں کو تھوڑی بہت اُمید تھی وہ بھی باقی نہ رہی‘ چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار ان کے جانشین مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی موجودگی میں لوٹ مار کا حساب بے باق کئے بغیر کوئی سابقہ حکمران اندر خانے ڈیل کا خواب نہیں دیکھ سکتا، خواب دیکھنے پر پابندی نہیں مگر من پسند تعبیر کے بارے میں سوچنا حماقت ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو خطرہ اپوزیشن یا شریف خاندان سے نہیں ‘اپنی بوالعجبیوں سے ہے۔ حکومت میڈیا کے محاذ پر چومکھی لڑ رہی ہے مگر پلڑا اس کا بھاری نہیں۔ تلخ کلامی اس کے ترجمانوں کا شعار ہے اور باہم ربط مفقود۔ ایک وزیر کچھ کہتا ہے دوسرا کچھ اور تیسرا بالکل مختلف۔ سی پیک اور سعودی تعاون پر بیانات ایک دوسرے سے نہیں ملتے اور پنجاب میں حکومت اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں شائد دلچسپی نہیں رکھتی۔ اقتدار طاقت کے چار مراکز چودھری سرور‘ چودھری پرویز الٰہی‘ سردار عثمان بزداراور علیم خان میں منقسم ہے۔ بیورو کریسی چودھری سرور اور پرویز الٰہی‘جبکہ پارلیمانی پارٹی علیم خان اور وزیر اعلیٰ کی طرف دیکھتی ہے، پارٹی کارکن دو کیمپوں میں بٹے ہیں اور وزیر اعلیٰ تک اُن کی رسائی مشکل۔شہباز حکومت نے چار ماہ کا بجٹ منظور کیا تھا، تین ماہ گزر گئے کسی کو علم نہیں کہ اگلے آٹھ ماہ کا بجٹ کب پیش اور منظور ہو گا؟ حکومت کے دبدبے کا اندازہ سینئر وزیر محمود الرشید کی پولیس گردی کے خلاف پریس کانفرنس سے لگایا جا سکتا ہے۔ مرنجاں مرنج وزیر اعلیٰ کے حکم پر قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا مگر وہ صرف بلڈنگیں گرانے تک محدود ہے جس مافیا نے عرصہ دراز تک سرکاری زمینوں پر قبضہ رکھ کر فائدہ اٹھایا‘ اسے قانون کی گرفت میں لانے سے احتراز برتا جا رہا ہے اور وزیر اعلیٰ لاہور سے باہر نکل کر خلق خدا کے مصائب و مشکلات سے آگہی میں شائد دلچسپی نہیں رکھتے۔ سرائیکی وسیب کے عوام اُن کے منتظر ہیں مگر موصوف لاہور سے دل لگا بیٹھے ہیں۔ عمران خان وزیر اعظم بن گئے تحریک انصاف کا کوئی پرسان حال نہیں حتیٰ کہ ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی تحریک انصاف کہیں نظر نہیں آتی ‘پی ٹی آئی کے امیدواروں کو گلہ ہے کہ وزیر مشیر تو درکنار کوئی رکن اسمبلی بھی ان کی مدد کو نہیں پہنچا۔ دانا حکمرانوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلا کر ارکان اسمبلی کو انتخابی حلقوں میں جانے سے روک رکھا ہے۔ بہتر ہو گا کہ حکومت پنجاب اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے اور کچھ نہیں کر سکتی تو تجاوزات کی طرح ملاوٹ‘گراں فروشی اور ناقص اشیائے خورو نوش کے خلاف زور دار مہم ہی شروع کر دے۔ کسی عائشہ ممتاز کی خدمات حاصل کرے تاکہ رانا مشہود یا کسی دوسرے کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ مقتدر حلقے موجودہ حکومت کی پرفارمنس سے مایوس ہیں اور ہم دو ماہ بعد حکومت سنبھال سکتے ہیں۔ شہری اور سیاسی تجاوزات کا خاتمہ جلد نہ ہوا تو ویراں گھروں میں گھسنے کے لیے جنات بہت۔ خانہ خالی را دیو اں می گیرند۔