گزشتہ ایک ہفتے سے طبیعت کی ناسازی کے باعث لکھنا موقوف رہا۔طبیعت کی خرابی آج کل ایک پورے پیکیج کی صورت حملہ آور ہوتی ہے۔ گلا خراب‘ بخار‘ فلو‘ کھانسی وغیرہ۔ اگرچہ یہ سب موسمی بیماری کی صورت بھی میں ہم پر حملہ آور ہوا مگر معصوم سا موسمی وائرس بھی وبائی ماحول سے شہ پا کر کافی تگڑا ہو چکا ہے۔ سو اس موسمی بخار کے اثرات طبیعت میں بے حد کمزوری‘ اضمحلال کی صورت وارد ہوئے۔ ایسے میں زندگی کا واحد مشغلہ بس آرام کرنا اور مزید آرام کرنا بن گیا۔ پھر آرام کے اس تسلسل سے طبیعت اور بھی مضمحل ہونے لگی۔ لکھنا تو درکنار اخبار تک پڑھنے میں جی نہ لگتا۔ پینٹنگ کرنے کا خیال آیا تو طبیعت کا اضمحلال‘ رنگ کی دلنشینی سے بھی نہ بہلا۔ کتابوں کے ڈھیر لگے تھے مگر کسی کتاب کو پڑھنے کا جی نہ کیا۔ جی ٹھہرا تو مختار مسعود کی آواز دوست پر جسے باردگر پڑھا اور اس کی سطروں میں چھپے حکمت اور سوچ کے کئی نئے زاویے احساس پر کھلے۔ کیوں نہ آج مختار مسعود کی اس آواز دوست سے کچھ قیمتی باتیں آپ سے بھی شیئر کریں۔ اس سے پہلے کہ آواز دوست کو اپنے کالم کا حصہ بنائیں‘ ایسے ہی خیال آیا کہ آج کل کتاب دوست اسے نہیں سمجھا جاتا جو اپنی کنج تنہائی میں کوئی اچھی کتاب اوڑھ کر پڑا رہے۔ آج کل کتاب دوست وہ ہے جو کتاب پڑھے اور پھر اس کا چرچا سوشل میڈیا پر ضرور کرے۔ اور اگر وہ بوجوہ اپنی فطری کم آمیزی کے ایسا نہ کر سکے تو بھلے وہ کتنی ہی کتابیں پڑھتا ہو‘ وہ کتاب دوست نہیں ہو سکتا۔ اس معیار پر تو کتاب کے عشق میں زندگی گزارنے والا زاہد ڈار بھی کہاں کا کتاب دوست تھا۔ مرحوم سے کتاب کی اتنی خدمت تو ہوئی نہیں کہ کتاب کی تصویریں کھینچتا اور اس فیس بک پر اس کی پوسٹ لگاتا۔ پبلشر اور مصنف کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا، پھر اس کی پوسٹ پر لائکس اور کمنٹس کی بھرمار ہوتی۔ مگر وہ تنہائی کا دلدادہ‘ زاہد ڈار کبھی سوشل میڈیا پر نہیں پایا گیا۔ بس اس کے ٹھکانے یہی دو تین ٹھہرے‘ ہائوس‘ ریڈنگز اور اس کا اپنا کنج تنہائی۔ مگر صاحبو‘ کتاب کی محبت میں غرق ہو کر بھی زاہد ڈار کتاب دوست نہیں۔ اگر ہوتا تو ضرور اپنی کتب بینی کے اشتہار کے ساتھ ضرور سوشل میڈیا پر ایک آدھ پوسٹ ہی لگایا کرتا۔ اللہ غریق رحمت کرے عجیب آزاد مرد تھا۔ اب ذرا ’’آواز دوست‘‘ کو بھی سن لیجئے۔ آج کے کالم میں سیاسی اور سماجی حالات پر تبصرہ ہم مختار مسعود کی شہرہ آفاق کتاب آواز دوست سے اقتباس ادھار لے کر کریں گے۔ اگر پڑھنے والے کے پاس وقت ہو اور سوچ کا دروازہ اندر کی جانب کھل جائے تو پھر ان سطروں سے بہت کچھ حاصل ہوگا۔ ٭ وہ قدرت کا سارا نظام اصولوں کے تابع ہے۔ بڑے آدمیوں کی پیدائش کے بھی تو کچھ اصول ہوں گے۔ بڑے آدمی انعام کے طور پر دیئے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر روک لیے جاتے ہیں۔ ٭ عطاء کا پہلا حق ہے کہ انسان اس کا شکر ادا کرے۔ دل شکر سے لبریز ہو تو روشن ہو جاتا ہے۔ شکوہ کیجئے تو کچھ جاتا ہے۔ ناشکر گزار ہو تو پتھر بن جاتا ہے۔ شکر گزار ہمیشہ روشن ضمیر اور روشن دماغ ہوتا ہے۔ ناشکر گزار بے ضمیر اور بددماغ ہو جاتا ہے۔ ٭ انسان شکر گزار‘ زود فراموش‘ فسادی اور زود ربج ہے اسی لیے ہدایت ہوئی کہ خدا کو یاد کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ خدا نے والدین کا شکریہ ادا کرنے کی بھی تاکید کی ہے۔ ٭ ناشکری کا نتیجہ بے ہنری کی صورت میں سامنے آیا ہے، جہاں ناشکر گزار اور بے ہنر جمع ہو جائیں وہاں منافقت کا دور دورہ رہتا ہے۔ ٭ قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشرات الارض کا۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔ ٭ دولت کا سیلاب آیا اور قناعت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ علم و دانش دریا برد ہوئے‘ کارواں نے راہ ہی میں رخت سفر کھول دیا۔ لوگ شادباد کے ترانے لگانے لگے اگرچہ منزل مراد ابھی بہت دور تھی۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی۔ یہ قحط الرجال ہیں، اہل زمین کا حال تھا۔ شاعر نے جو یہ حال دیکھا تو نوحہ لکھا: بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں ٭ منافق کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زباں پر کچھ اور وہ دو قدم زبان کے ساتھ اٹھاتا ہے چار قدم دل ہی دل میں پیچھے چلا جاتا ہے، جس قافلے میں ایسے مسافر شامل ہوں، اسے نہ کبھی سمت ملی ہے اور نہ منزل۔ ایسے کارواں میں عبرت اور ذوق کی کمی اور بے کسی اور بے دلی کی فراوانی ہوتی ہے کیونکہ عبرت وہ پکڑتے ہیں جو شکر کرنا جانتے ہں۔ ذوق ان میں ہوتا ہے جو شرف و ہنر رکھتے ہوں۔ تمنا ان کی جواں ہوتی ہے جو منافقت سے ناآشنا ہوں۔ اگر دل تشکر کی طرف نہیں آتا‘ دماغ ہنر کی طرف جاتا اور زبان حق کی طرف مائل نہیں ہوتی تو انسان انسان نہیں رہتا بلکہ دشت و صحرا میں بدل جاتا ہے۔ جب چاروں طرف بیکراں دشت آدم زاد کی شکل میں پھیلے ہوں تو اس صورت حال کو قحط الرجال کہتے ہیں۔ ٭ مجھے یہ اندازہ ہی نہ تھا کہ لوگوں کے دن پھر جائیں گے اور دل بدل جائیں گے شب و روز کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آوے کا آوا بگڑ گیا۔ سب کچھ بدل گیا۔ سوچ‘ نظریں اور زندگی۔ صورتیں سایوں میں ڈھل گئیں‘ سائے اندھیروں میں ڈوب گئے۔ بہت سے اچھے آدمی بھی اچھے نہ رہے اور وہ چند اچھے آدمی جو بچ رہے وہ روپوش ہو گئے۔احساس زیاں میں لپٹی انہی سطروں کے ساتھ آپ سے اجازت چاہتی ہوں۔