کراچی کو غیر ضروری طور پر سیاسی ہیجان کا شکار بنانے کی کوشش کس طرح قومی سطح پر مسائل پیدا کرسکتی ہے اس کا اندازہ مزار قائد پر خلاف ا دب اور خلاف ضابطہ شور شرابے سے شروع ہو کر گلشن اقبال میں بم دھماکے کے واقعہ سے کیا جا سکتا ہے جس میں پانچ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ کراچی کی حساسیت سے وہ طاقتیں واقف ہیں جو پاکستان کے مفادات کے خلاف جنگ کر رہی ہیں۔ سیاستدان باقی شعبوں کے افراد کی نسبت ہمہ جہتی صلاحیتوں کا مالک سمجھا جاتا ہے اس لیے اس سے یہ توقع بے جا نہیں ہوتی کہ وہ ریاست کے لیے حساس معاملات پر کسی کمزور لمحے میں بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا۔ دسمبر 2014 میںآرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردانہ حملہ ایک المناک باب ہے جسے قومی تاریخ میں خون سے رقم کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد تحریک انصاف نے اپنا طویل دھرنا ختم کر کے پیغام دیا کہ قوم پر جب مشکل وقت ہو تو سیاسی مفادات ترجیح نہیں ہوتے۔ اس سے دھرنے کی مقصدیت اور تحریک انصاف کی استعداد پر منفی تاثر ابھرا لیکن دھرنا ختم کر کے پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس میں ن لیگ‘ پیپلزپارٹی‘ مولانا فضل الرحمن‘ اے این پی بلوچستان کی جماعتوں اور ایم کیو ایم کے ساتھ تحریک انصاف ایک جگہ بیٹھ گئی۔ تمام جماعتوں کے قائدین نے عسکری قیادت کے ساتھ مشاورت کی۔ اس مشاورت کو نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں سب کے لیے قابل قبول دستاویز بنایا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پورے ملک میں دہشت گردوں‘ ان کے سہولت کاروں‘ ہمدردوں اور فنڈز فراہم کرنے والوں کا تعاقب کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کو کراچی میں فوج اور رینجرز کے انتظامات سنبھالنے پر اعتراض تھا۔ پیپلزپارٹی نے اس سلسلے میں جب بھی رینجرز کو توسیع دینے کا مرحلہ آیا تاخیری حربے استعمال کئے۔ سابق آئی جیز اے ڈی خواجہ اور کلیم امام کے ساتھ صوبائی حکومت کا مداخلت کے باعث جھگڑا رہا۔ ایپکس کمیٹی بنی‘ ایم کیو ایم نے جب بھی اختلافی اقدام کا عندیہ دیا اس وقت کے ویر داخلہ رحمان ملک ٹربل شوٹر کے طور پر متحرک ہوئے۔ کراچی میں امن مقامی لحاظ سے ہی ضروری نہیں‘ غیر ملکی سرمایہ کاری اور سی پیک کی کامیابی کے لیے بھی یہ شہر اہم ہے لیکن سندھ پولیس کا سیاسی مداخلت سے آلودہ ہونا تمام صوبے کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔ کئی خاندان قتل کردیئے جاتے ہیں‘ عزتیں محفوظ نہیں‘ سرکاری زمینوں پر منتخب نمائندے قبضے کرلیتے ہیں۔ان حالات میں رینجرز اور فوج نے کراچی میں دن رات کام کیا۔ ایم کیو ایم (لندن گروپ) کو قابو میں کیا گیا۔ عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کیا گیا۔ آج کراچی کے اسی فیصد لوگ اس بات کی حمایت کریں گے کہ شہر میں فوج اور رینجرز کو رکھا جائے۔ 95 فیصد لوگ کراچی پولیس سے بیزار ہیں۔ یہ وہی پولیس ہے جس کے چند افسر عزت نفس مجروح ہونے کا بتا کر استعفوں کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو‘ سندھ حکومت اور سندھ پولیس کے معزز افسران اس وقت کہاں تھے جب مزار قائد پر ہنگامہ آرائی ہورہی تھی۔ بعد میں جو ہوا وہ اس واقعہ کا تسلسل ہے۔ بتایا جائے کہ پولیس اور صوبائی حکومت کو اپنے مفادات بابائے قوم کی حرمت سے زیادہ کیوں عزیز ہیں؟ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کور کمانڈر کانفرنس میں ملک کو درپیش خطرات کے حوالے سے مسلح افواج کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوششوں کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اہل پاکستان اور مسلح افواج نے امن و استحکام کے لیے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے اور اس استحکام کو کسی صورت دائو پر نہیں لگنے دیں گے۔ آرمی چیف نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے اعتراض کا نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے کور کمانڈر کراچی سے واقعہ کی تحقیقات کا کہا ہے۔ آرمی چیف کی طرف سے نوٹس لینے کے بعد کراچی پولیس کے 88 افسران نے چھٹی کی درخواستیں روک لی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پولیس افسروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ اس سارے معاملے میں پی پی اور اس کی صوبائی حکومت یہ بات فراموش کئے بیٹھی ہے کہ ایک واقعہ ہواتو اس کے ذمہ داروں کو محض اس وجہ سے کیوں رعایت دی جائے کہ وہ اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں۔ کراچی کو بڑی قربانیوں کے بعد دہشت گردی‘ سیاسی تنہائی اور لسانی سیاست سے نکالا گیا ہے۔ کراچی کے عوام کا مسلسل استحصال کیا گیا ہے۔ انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔ سیاسی رہنما ان کی محرومیوں کی نمائش کر کے اقتدار تک پہنچتے ہیں۔ تمام سیاست دان قابل احترام ہیں لیکن کوئی لیڈر نہ تو ریاست سے برتر ہے نہ قانون سے بالا۔ جس نے جرم کیا اسے سزا نہ ملے تو معاشرہ انتشار کا شکار ہوتا ہے ‘شاہ رخ جتوئی جیسے کتنے ہی وڈیرے اور بااثر افراد ہیں جنہیں جرم کرنے پر پولیس سرکاری مہمان کا درجہ دے کر خدمت بجا لاتی ہے۔ پولیس میں بلاشبہ بہت سے دیانتدار ،محنتی، پرخلوص اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے اہلکار اور افسر موجود ہیں جن کی خدمت کا اعتراف کیا جاتاہے لیکن سیاستدانوں کا آلہ کار بن کر کسی انتشار کا حصہ بننے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ کراچی میں انتشار پھیلا کر کسی کو اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس سلسلے میں صرف ریاست کے مفادات کو اہمیت دی جانی چاہیے۔