قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ میں شاید ہی کسی اور قوم کی بدبختی کا دورانیہ اتنا طویل رہا ہوگا جنتا کشمیریوں کا ہے یہ بد بختی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ گو کہ اس قوم کی بدقسمتی اور کسمپرسی میں اپنوں کی عاقبت نااندیشیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہر دور میں اضافہ ہوتا رہا ہے مگر 5اگست2019 کو مودی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے انہوں نے کشمیر کو تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر لاکر کھڑا کردیا ہے، جس سے نہ صرف اس کے باشندوں کو مکمل طور پر بے اختیار کرنے بلکہ ہندو قوم پرستی کی تہذیبی یلغار سے ا نکی مذہبی و لسانی شناخت اور انفرادیت کو داو پر لگا کر اپنے ہی وطن میں غیر اور بے بیگانہ کرنے کا عمل شروع کیا گیاہے۔ اس تناظر میں ریاست جموں و کشمیر کے موقر انگریزی اخبار دی کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھسین نے حال ہی میں اپنی شائع کتاب A DISMANTLED STATE: THE UNTOLD STORY OF KASHMIR AFTER ARTICLE 370 میں پچھلے تین سالوں سے اس قوم پر گزرے لمحات کو ڈاکومنٹ کرکے ایک ہزار کے قریب نئے قوانین کے اطلاق اور مقامی آبادی پر ان کے اثرات پر جس خوبی اور بصیرت کے ساتھ بحث کی ہے، اس نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے جدید صحافت کے بانی وید بھسین کی بیٹی کہلانے کی واقعی حق دار ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں مشکل ترین حالات میں بھی صحافتی اقدار کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انورادھا لکھتی ہیں کہ5اگست 2019کی صبح جب کشمیریوں کی بدقسمتی کی ایک اوررات کا آغازہو رہا تھا تو اپنے بے چین دماغ کو سکون دینے کیلئے وہ جموں شہر کی مقتدر شخصیت کرشن دیو سیٹھی کے پاس چلی گئیں۔ایک زمانے میں قد آور لیڈر شیخ محمد عبداللہ کے دست راست سیٹھی صاحب واحد ایسے زندہ لیڈر تھے جو جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ممبر رہ چکے تھے۔ انہوں نے ریاست کے آئین کا مسودہ تیا ر کیا تھا، جس کو نئی دہلی میں وزیر داخلہ امیت شاہ اسوقت ردی کی ٹوکری کی نذر کر رہے تھے۔اپنی بوڑھی آنکھوں سے ٹی وی سکرین کی طرف دیکھ کر آنسو پونچھتے ہوئے سیٹھی صاحب کہہ رہے تھے کہ ’’بیٹی سب کچھ ختم ہو گیا۔‘‘ 1950کی دہائی میں اراضی اصلاحات کو لاگو کروانے اور زمینداروں و جاگیرداروں سے زمینیں چھین کر کاشتکاروں میں بانٹنا ان کا ایک اہم کارنامہ تھا۔ انورادھا نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ اصلاحات جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بغیر ممکن ہو سکتی تھیں تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ کشمیر میں مکمل اراضی اصلاحات اسی لئے ممکن ہوسکیں کیونکہ تب تک کشمیرپر بھارت کے اداروں بشمول سپریم کورٹ کی عملداری نہیں تھی اسلئے ا ن اصلاحات کو چیلنج نہیں کیا جاسکا۔ سیٹھی صاحب کہہ رہے تھے کہ شخصی ڈوگرہ راج کے خلاف ان کی جنگ کی افادیت کو آناً فاناً ختم کردیا گیا ہے۔ ’’... میری زندگی کوبیکار کردیا گیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی برباد کر دی، جیل گیا، زیر زمین تحریک چلائی ۔ 1947 سے پہلے اور بعد میں جابر طاقتوں سے لڑا۔مگر افسوس صد افسوس۔ــ‘‘ انورادھا کے مطابق ایک ایسا شخص ، جو زندگی بھر بے خوف رہا، اس کے چہرے پر ناامیدی واضح تھی۔ جنوری 2021میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ماضی کے دریچے کھولتے ہوئے سیٹھی صاحب انورادھا کو بتا رہے تھے کہ 1949 میں، شیخ عبداللہ نے جموں و کشمیر کے مستقبل پر بات چیت کرنے کیلئے نئی دہلی ایک وفد بھیجا، جس میں وہ بھی شامل تھے۔ اس وفد نے وزیرا عظم جواہر لال نہرو اور وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ کئی دور پر مشتمل بات چیت کی۔ دونوں لیڈران جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تسلیم کئے جانے کے حامی تھے۔ سیٹھی صاحب کے بقول ان کے وفد نے پانچ نکات پیش کئے، جن میں اراضی اصلاحات، قرضوں کی معافی، شخصی ڈوگرہ راج کا خاتمہ، علیحدہ کرنسی اور علیحدہ آئین و جھنڈا شامل تھے۔ نہرو اور پٹیل نے الگ کرنسی کے مطالبہ کو تو مسترد کر دیا، مگر باقی چار پر حامی بھر لی۔ مگر اب یہ سبھی چیزیں ا ن کی ٹمٹماتی آنکھوں کے سامنے چھینی جا رہی تھیں۔ بھارتی لیڈروں کے باقی وعدوں کی طرح اس کو بھی ہوا میں اڑایا جا رہا تھا۔دستاویز الحاق کی شق 5 میں ہی بتایا گیا تھا کہ انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ ،جو بعد میں بھارتی آئین قرار پایا ،کے ذریعے الحاق کی شقوں میں ترمیم نہیں کی جائیگی۔ شق 7 میںبتایا گیا کہ اس دستاویز کی رو سے بھارت کے مستقبل کا آئین یا حکومت بھارت ، ریاست کے انتظامی امور میں مداخلت کا حقدار نہیں ہوں گے۔ 4 اگست 2019 کی آدھی رات کو جب کشمیر میں سڑکیں سیل کر دی گئیں، تمام مواصلاتی رابطے منقطع کر دئیے گئے، انورادھا کی بہن سرینگر میں درگاہ حضرت بل سے متصل کشمیر یونیورسٹی کے گیسٹ ہاوس میں مقیم تھیں۔ شام کو اس نے فوجیوں کی غیر معمولی نقل حرکت دیکھی۔ رات گئے تک اس کے فون کے سگنل ہی غائب تھے۔ صبح گیسٹ ہاؤس کی لینڈ لائن بھی ڈیڈ تھی۔ گیسٹ ہاوس میں وارانسی یعنی بنارس یونیورسٹی کے کچھ سکالرز مقیم تھے، وہ نباتیات کے کسی پروجیکٹ پر کام کرنے کیلئے کشمیر آئے ہوئے تھے۔کسی طرح یونیورسٹی سے بسیں حاصل کرکے وہ ائیر پورٹ پہنچے۔ انورادھا کی ہمشیرہ ، پہلی ایسی خاتون تھی، جو چشم دید واقعات سنانے کیلئے جموں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ۔ اس کا کہنا تھا کہ سرینگر ایک خوف و دہشت کی بستی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پورا شہر خار دارتارو ں سے بھرا ہواہے اور ہر گلی اور موڑ پر سپاہی تعینات ہیں۔ ائیر پورٹ کے راستے ان کی کئی جگہوں پر چیکنگ کی گئی۔ وہ راستے بھر معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایسا کیا کچھ ہوا ہے کہ کرفیواور اسطرح کی پر اسرار خاموشی طاری کی گئی ہے۔ مگر بتانے والا کوئی نہیں تھا۔کسی کو پتہ نہیں کہ کیا ہوا ہے۔ انہیں ائیر پورٹ تک پہنچے میں دو گھنٹے کا وقت لگا۔ (جاری ہے)