کراچی میں ایک ہفتے کے دوران بجلی کا دوسرا بڑا بریک ڈائون انتظامی شعبے کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ متعدد گرڈ سٹیشن بند ہونے سے کراچی کے بیشتر علاقے ‘اندرون سندھ اور بلوچستان بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں بجلی کی پیداوار 22ہزار میگاواٹ ہو گئی ہے جبکہ طلب 21ہزار 40میگاواٹ ہے یوں سسٹم میں 960میگاواٹ بجلی فاضل ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ بجلی کے تسلسل سے ترسیل کے باعث ٹرانسمیشن سسٹم ٹرپ کر جاتا ہے ۔بسا اوقات بڑا بریک ڈائون بھی ہو جاتا ہے۔ چند روز قبل لاہور میں بڑا بریک ڈائون ہوا جس کے باعث آدھا لاہور شہر کئی دن تک تاریکی میں ڈوبا رہا۔ اب کراچی میں بھی متعدد گرڈ سٹیشن بند ہونے سے بلوچستان ‘اندرون سندھ اور کراچی شہر کا بڑا علاقہ بجلی سے محروم ہے۔ نئی حکومت کو پہلی فرصت میں بجلی کے سسٹم کو مضبوط بنانا ہو گا‘ نئی مضبوط ایکسٹرا ہائی ٹینشن لائنیں فی الفور بچھانے کا منصوبہ تشکیل دینا ہو گا‘ جو بجلی کی مسلسل فراہمی کا بوجھ برداشت کر سکے۔ ٹرانسفارمر بھی اعلیٰ کوالٹی کے نصب کئے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی چھوٹی لائنوں کی ازسرنو تنصیب یقینی بنائی جائے ۔مسلم لیگ ن نے بجلی کے منصوبوں پر کام تو کیا لیکن جو کام بنیادی تھا اسے نظر انداز کئے رکھا۔ جس کے باعث بجلی کی ترسیل کا پرانا نظام زیادہ بوجھ برداشت ہی نہیں کر رہا اور آئے روز بڑی لائنیں ٹرپ کر جاتی ہیں اس وقت بھی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش 28ہزار میگاواٹ ہے لیکن ٹرانسمیشن لائنز اس کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں ۔حکومت اب نئے ڈیم تعمیر کرنے کا اعلان کر چکی ہے ‘صاف ظاہر ہے اس سے مزید بجلی پیدا ہو گی لہٰذا حکومت فی الفور ہائی وولٹیج لائن بچھا کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرے تاکہ آنے والے وقت میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔