یہ بات تو طے ہے کہ بھارت نے ہمیشہ ہر کام میں پاکستان کی مخالفت کرنی ہے۔ آج تک خطے میں قیام امن کیلئے نہ خود کوئی کوشش کی اور نہ ہی پاکستانی کوششوں کوشرف قبولیت بخشا۔ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کو ہمیشہ بھارت نے سبوتاژ کیا۔ سارک تنظیم جو خطے کے ممالک کی ترقی اور باہمی تجارت و امن کے فروغ کیلئے بنائی تھی، اسے بھی بھارت نے متنازعہ بنایا۔ ابھی چند ماہ پیشتر اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر وزرائے خارجہ کی ملاقات کی پاکستانی پیشکش کو پہلے قبول کر کے بعد میں انکار کر دیا ۔ اور اب کرتار پور بارڈر کھولنے کے پاکستانی فیصلے پر رضامند ہونے کے باوجود اس تقریب میں شرکت نہ کر کے دنیا کو قیام امن کے مخالف پیغام دیا گیا۔ کرتارپور کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ جب سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو کا 1539ء میں انتقال ہوا تو روایت ہے کہ مقامی مسلمان، سکھ اور ہندو آبادی میں ان کی آخری رسومات کے حوالے سے تفرقہ پڑ گیا۔ ہر طبقہ اپنی اپنی مذہبی روایات کے مطابق ان کی میت کو دفنانا اور آڑہتی کو جلانا چاہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر بابا گْرو نانک کی میت چادر کے نیچے سے غائب ہو گئی اور اس کی جگہ مقامی افراد کو محض پھول پڑے ملے۔ ان پھولوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصہ مسلمانوں نے اپنی روایت کے مطابق دفنایا تو پاس ہی دوسرا ہندوؤں اور سکھوں نے احتراق کیا۔ لگ بھگ اسی مقام پر آج گردوارہ دربار صاحب کرتارپور کی عمارت کھڑی ہے۔ 1947ء کی تقسیم کے بعد یہ علاقہ پاکستان کے حصے میں آیا ۔یہ مقام سکھ برادری کے لیے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ لیکن دنیا میں بسنے والے تقریباً تین کروڑ سکھوں کی اکثریت گزشتہ 71 برس سے اس کی زیارت سے محروم ہے۔ اس کی وجہ شروع دن سے دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی ہے۔ ایک معاہدے کے مطابق ننکانہ صاحب کی زیارت پر آنے والے بھارتی سکھوں میں سے چند کو کرتار پور پر ویزا ملنا شروع ہوا لیکن ان سکھوں کی تعداد بھی چند سو سے زیادہ نہیں تھی۔ اب تک بھارتی سکھ چار کلومیٹر دور سرحد کے اْس پار سے کرتار پور گوردوارہ کو دیکھ سکتے تھے ۔ انڈین بارڈر سکیورٹی فورس نے سرحد پر ایک 'درشن استھل' قائم کر رکھا ہے جہاں سے وہ دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدارکیا جا سکتا تھا۔ راستے میں دریائے راوی اور نالہ بئیں پڑتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال میں شہر سے تحصیل شکر گڑھ کی جانب جاتی شاہراہ سے دربار صاحب کی عمارت میلوں دور سے نمایاں نظر آتی ہے۔ سکھوں کی اس مقام سے مذہبی عقیدت اور بے بسی دیکھتے ہوئے پاکستانی حکومت نے کرتار پور بارڈر کھولنے کا عندیہ دیا۔ اس کے بعد انڈیا میں مقیم سکھ برادری کو یہ امید ہو چلی ہے کہ شاید عنقریب وہ اپنے مقدس ترین مذہبی مقام کی زیارت کر پائیں گے۔وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری سے واپسی پر سابق انڈین کرکٹر اور وزیر نوجوت سنگھ سدھو کا بیان سامنے آیا تھا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ نے ان سے کرتارپور سرحد کھولنے کے امکانات کے حوالے سے بات کی تھی۔ اس کے چند روز بعد پاکستان میں بھارتی سفیر نے کرتارپور کا دورہ بھی کیا۔ بہر حال پاکستان نے خطے میں قیام امن اور سکھ قوم کی مذہبی رسوم کی ادائیگی کی خاطر کرتار پور بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں وزیر اعظم عمران خان نے سنگ بنیاد رکھنا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کیلئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ سشما سوراج ، بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور دیگر حکومتی عہدیداروں کو دعوت دی مگر میں نہ مانوں کی رٹ لگائے بھارتی قیادت کا انکار سامنے آیا۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے کرتارپور بارڈر پر راہداری کھولنے کی سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت سے انکار کے بعد بھارتی پنجاب کے وزیراعلی امریندر سنگھ نے بھی پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو شرکت سے انکار کر تے ہوئے کہا کہ سکھ برادری کیلئے اقدام قابل ستائش ہے تاہم تقریب کا حصہ نہیں بن سکتا۔ پاکستان بھارت صورتحال تبدیل ہونے پر گردوارہ کرتارپور حاضری دوں گا۔ کہا جا رہا ہے کہ بھارت میں ہونے والے الیکشن کی وجہ سے سشما سوراج کو کرتار پور راہداری منصوبہ کی سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کا فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے سے سیکھنا چاہیے۔ بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ ماضی کی زنجیرجب تک توڑیں گے نہیں،آگے نہیں بڑھیں گے۔ ہمیں اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنا ہے۔ کئی جنگیں لڑنے والے فرانس اورجرمنی ملکرآگے بڑھ سکتے ہیں توہم کیوں نہیں۔ عمران خان کا کہناتھا کہ سدھوجب پاکستان آئے توان پربھارت میں بڑی تنقید ہوئی،سدھودوستی اورمحبت کا پیغام لے کرآئے پھرتنقید کیوں؟اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور بھارت خطے کے اہم ملک ہیں۔ ماضی کوبھول کر مسائل کے حل کیلئے آگے بڑھنا ہوگا ۔ پاکستان 70سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہاہے ۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔ حقیقت ہے کہ بھارت کے انکار کے بعد بہت سخت مایوسی ہوئی۔ بھارت اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ اورہے۔ بھارت اپنے ہی شہریوں کو کوئی خوشی دے کر راضی نہیں ، صرف اس لئے کہ ان کا تعلق ایک اقلیتی جماعت سے ہے۔ یہ بھارت کا سیکولر ازم کا بھانڈا پھوڑنے کیلئے کافی ہے۔ بھارت میں اپریل میں انتخابات ہیں۔ وہاں مذہبی کارڈ کھیلا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم مودی مذہبی کارڈ شدت سے کھیل رہے ہیں لیکن مذہبی کارڈ کے نتائج خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ کرتار پور بارڈ کھولنے کے حوالے سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سکھوں کو کرتارپور تک رسائی دینے کے لیے ایک ویزہ فری کاریڈور تعمیر کیا جائے۔ یعنی سکھ یاتری صرف دربار صاحب تک آ پائیں گے اور انھیں اس کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہو گی۔تاہم پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اس پر راضی ہوتی ہیں یا نہیں ،یہ دیکھنا باقی ہے۔اس میں کچھ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دریائے راوی اور نالہ بئیں پر پل بھی تعمیر کئے جانے ہیں جس میں ظاہر ہے وقت تو لگے گا ہی۔