کراچی میں پولیس کے شہید جوان کی والدہ محترمہ کے ساتھ جو ہتک آمیز سلوک ہوا وہ دراصل ہمارے معاشرے کے اخلاقی زوال کا ایک علامتی منظر ہے پورا سماج اسی ایک منظر کا تسلسل پیش کرتا ہے۔ استثنیات اپنی جگہ موجود ہیں لیکن یہاں مجموعی صورت حال کی ہوا ہی ہے۔ ہم قاعدے‘ اصول‘ اخلاقیات کو صرف سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں عملی زندگیاں اس کے اثر سے خالی رہتی ہیں۔ پورا معاشرہ دوسروں کے اخلاق درست کرنے کے درپے ہے۔ فیس بک کی پوسٹیں دیکھ لیں وٹس ایپ پر کئے گئے پیغامات کو پڑھ لیں۔ ہر کوئی اخلاقیات کا علامہ بنا دوسرے کو سدھار رہا ہے۔ او خدا کے بندو اپنا قبلہ تو درست کر لو۔ اگر صرف سوشل میڈیا کی پوسٹوں سے کسی سماج کی اخلاقیات کا اندازہ لگایا جاتا تو یقینا پاکستانی معاشرے کو انعام کا حقدار قرار دیا جاتا تو یقینا پاکستانی معاشرے کو انعام کا حقدار قرار دیا جاتا۔ اعداد و شمار نکالے جائیں تو 70فیصد پاکستانی ضرور سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور سب کے سب دانشور مفتی ‘علامہ‘ مصلح‘ ناصح دوسروں کو سدھارنے پر کمربستہ۔ اخلاقیات کے پیغامات بھیج بھیج کر دوسروں کا ناک میں دم کر دیں گے اور حقیقت اس معاشرے کی یہ ہے کہ فرض کی ادائیگی میں شہید ہونے والے ایک پولیس اہلکار اے ایس آئی اشرف کی بزرگ والدہ کو ایوارڈ تقریب میں مدعو کیا جاتا ہے جہاں یقینا وہ اسی فخر سے گئیں ہوں گی کہ ان کے جگر کا ٹکڑا اس وطن کی خاطر شہید ہوا ہے۔ وہ ایک شہید کی ماں ہیں۔ مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں اور پھر اگر کوئی شہید کی ماں ہو تو کیا وہ سارے پاکستانیوں کے لئے ماں کا درجہ نہیں رکھتی۔ تو یہ شہید کی ماں کسی دور دراز علاقے سے اس تقریب میں پہنچتی ہیں۔ اس کے بعد کی کہانی ہمیں خبروں سے پتہ چلتی ہے کہ شہید کی ماں کو کھانا کھانے کے لئے کوئی ڈھنگ کی کرسی اور میز مہیا نہیں کیا گیا ہے اور وہ زمین پر ایک طرف بیٹھی ہوئی۔ ایک پلیٹ میں سالن کی دو بوٹیاں ڈالے ایک پلیٹ میں روٹی کے چند ٹکڑے رکھے معززین شہر کے قدموںمیں بیٹھی ہوئی کھانا کھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ پولیس کی وردیاں پہنے‘ قوم کے محافظ‘ جن کے کرپشن اور بددیانتی سے پلے ہوئے دماغوں میں کسی اخلاقیات اور انسانیت کا گزر محال ہے۔ کرسیوں پر براجمان ہوس کا پیٹ بھرنے میں مصروف رہے۔ کھانا کھل جائے تو اس قوم کی صدیوں کی بھوک بیدار ہو جاتی ہے۔ سو اشرف شہید کی والدہ کے میزبان اپنی صدیوں کی بھوک مٹانے میں ایسے غرق ہوئے کہ انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ ان کے قدموں میں ایک ماں بیٹھی ہوئی اس معاشرے کا اخلاقی زوال کا مذاق اڑا رہی ہے! یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور سوشل میڈیا صارفین نے اپنے دل کی بھڑاس خوب نکالی۔ ایک صارف نے بجا طور پر لکھا کہ آئی جی سندھ کو اس ماں کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر پورے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے معافی مانگنی چاہیے۔ آخری خبریں آنے تک میزبانوں کی طرف سے مہمان کی اس انوکھی عزت افزائی پر معذرت کر لی گئی ہے اور اس معذرت کا خیال بھی تب آیا جب سوشل میڈیا صارفین نے میزبانوں کی ایسی حرکت پر انہیں آئینہ دکھایا۔! میرے نزدیک کچھ داغ ایسے ہوتے ہیں جنہیں معافی اور معذرت کا ڈٹرجنٹ بھی نہیں دھو سکتا۔ شہید کی ماں کے ساتھ یہ بدسلوکی بھی ایسا ہی داغ ہے ہم شہید اشرف کی ماں سے شرمندہ ہیں جن کے بیٹے نے اپنی قیمتی جان اس ملک کے لئے وار دی جہاں کرسیاں برائے افسران ہوتیں اور شہید کی ماں کو ان کے قدموں میں جگہ ملتی ہے۔کالم کے دوسرے حصے میں بات کرتے ہیں۔اس قرار داد کی جو پنجاب اسمبلی میںپیش ہوئی اور حکومتی اور اپوزیشن دونوں اطراف کے بنچوں کی مکمل حمایت کے ساتھ منظور ہو گئی۔ اس قرارداد کو پیش کرنے کا اعزازجھنگ سے رکن پنجاب اسمبلی معاویہ اعظم نے حاصل کیا جو نامور مذہبی رہنما مولانا اعظم طارق کے صاحبزادے ہیں۔ قرار داد یہ تھی کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں ٹی وی اداکاروں اور فلمسٹاروں کو رمضان المبارک کے پروگراموں کی میزبانی سے روکا جائے۔ ضروری ہو تو ایسے پروگراموں کی میزبانی دین کو سمجھنے والی شخصیات کو دی جائے جن کا تعلق شوبز سے نہ ہو۔ پیمرا سے استدعا کی گئی ہے کہ رمضان المبارک کے پروگراموں میں اس مہینے کے تقدس کا خیال رکھا جائے۔ دید آید درست آید کے مصداق یہ قرار داد اگرچہ دیر سے آئی لیکن درست قدم اٹھایا گیا۔ اس قرار داد کو اگر ایک دو ماہ پیشتر پیش کر دیا جاتا تو اس پر عملدرآمد آسان ہوتا کیونکہ ٹی وی چینلوں نے رمضان المبارک کے پروگراموں کی تیاری‘ چار چھ ماہ پہلے سے ہی کرنی ہوتی ہے۔ خبر نہیں کہ اس پر عملدرآمد ہو پائے گا کہ نہیں۔ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ بات تھی کہ ہر ایسے پروگرام پر رمضان المبارک میں پابندی ہو جس میں اس ماہ مبارک کے تقدس اور احترام کو کمپرو مائز کیا جائے۔ کچھ عرصہ سے یہ ریت چلی ہوئی ہے کہ مذہب کو ایک پروڈکٹ کی طرح بیچا جاتا ہے کنزیومر کمپنیاں اپنی پروڈکس اور پرافٹ کے لئے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتیں اور پورے تیس روزوں میں ٹی وی چینلوں پر افطاری کے بعد ایک دھماچوکڑی مچی ہوتی ہے۔ موبائل سیٹوں اور موٹر سائیکلوں کے پیچھے یہ پاکستانی قوم ایسے ایسے کرتب کرتی نظر آتی ہے کہ الامان! ایسے پروگراموں میں میزبان اپنی انگلیوں پر مہمانوں کو نچوا سکتا ہے۔ بس پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ والی بات ہے۔ ٹکے کے انعام کے پیچھے لوگ اپنی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ سارا تماشا رمضان نشریات کے نام پر ہوتا ہے۔ مذہب کے نام پر تماشا لگانے کی یہ روایت ایک عرصے سے شروع ہے افطاری سے پہلے عالم اور نعت خواں کے روپ میں اور افطاری کے بعد فنکار صدا کار۔ اور کلاکار کے روپ میںکئی لوگ کرتب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔