کرونا سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم نے کرونا ریلیف فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس فنڈ میں عطیات جمع کرانے والوں کے لیے حکومت نے ٹیکس ریفنڈ کا اعلان بھی کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مہلک وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو رقم کی ضرورت ہے۔ اس فنڈ کا قیام ایک طرف قوم کو متحرک رکھے گا اور دوسری طرف صاحب ثروت طبقات کو موقع ملے گا کہ وہ مشکل کے وقت اپنے ضرورت مند بھائیوں کے کام آ سکیں۔پاکستان معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ سابق حکومتیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے جو قرض لیتی رہی ہیں وہ غلط ترجیحات پر خرچ ہوتا رہا۔ زراعت، سماجی بہبود، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو مضبوط بنا کر ترقی کا پہیہ تیز کیا جا سکتا تھا۔ اداروں کو مضبوط بنانے کی بجائے ماضی کی حکومتیں سیاسی وفاداروں کی کھیپ تیار کرتی رہیں۔ سرکاری اداروں میں، افسر شاہی میں، کاروباری برادری میں، ٹریڈ یونین میں، ہر جگہ سیاسی وفاداروں کو ادارہ جاتی ضوابط اور قوانین توڑنے کی اجازت دی گئی۔ ان سیاسی وفاداروں کو ملک کی بہبود کی بجائے حکمران خاندانوں کی بہبود کی خدمات تفویض کی گئیں۔ ملک کو اگر اچھا وزیر خزانہ نہ ملے تو کوئی بات نہیں، حکمران خاندانوں کے اندرون و بیرون ملک اثاثوں کی حفاظت کرنے کی اہلیت والا شخص ضرور اعلیٰ عہدے پر ہو گا، ایسے ہی نام نہاد مالیاتی و معاشی ماہرین نے ماضی کے حکمرانوں کو ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کی تعمیر کے منصوبوں کو ترقی کا ذریعہ بتایا۔ جس ملک میں لاکھوں افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ہو اور کئی کئی سو میل پر ایک ہسپتال نہ ہو، جہاں تھر کے رہنے والے ہر سال ایک ہزار سے زاید بچوں کو موت کے حوالے کر دیتے ہوں، جہاں پینے کا صاف پانی نہ ہو، اس ملک کے کچھ علاقوں کو وینس اور پیرس بنانے کی باتیں کی جاتی رہیں۔ کرونا کی وبا نے ماضی کے سب منصوبوں اور ترجیحات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے ملک کے روز مرہ معاملات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ناچاہتے ہوئے آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا قرض لیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور قطر نے الگ سے تعاون کیا۔ ان سب انتظامات کے بعد ٹیکس نیٹ اور محصولات کا حجم بڑھانے کے لیے اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ درآمدات اور برآمدات کے مابین ایک توازن پیدا ہو رہا تھا۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ایک مناسب سطح پر مستحکم ہو چکی تھی۔ سٹاک مارکیٹ میں بہتری آ رہی تھی، غیر ملکی سرمایہ کار اور سیاح پاکستان کا رخ کرنے لگے تھے، کئی غیر ملکی فضائی کمپنیوں نے اپنی پروازیں پاکستان سے شروع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ کرکٹ کے غیر ملکی کھلاڑی بلاخوف پاکستان آ رہے تھے، یہ سارے مثبت اشارے تھے اور ان سے معاشی بہتری جنم لے رہی تھی کہ کرونا کی وبا پھوٹ پڑی۔کرونا کی وبا نے پاکستان کی بین الاقوامی تجارت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کارخانے، شاپنگ مال، جم، شادی ہال، ریسٹورنٹس اور بازار بند کر دیئے گئے ہیں۔ ملک کے اکثر علاقوں میں لاک ڈائون ہے۔ ٹرانسپورٹ بند ہے۔ اس لیے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ آ جا نہیں سکتے۔ بہت سے ملازمین بیروزگار کر دیئے گئے ہیں۔ 70لاکھ افراد دیہاڑی دار ہیں۔ لاک ڈائون اور کاروبار بند رکھنا عوام کی جان اور صحت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ ایک یہی احتیاطی تدبیر ہے جس سے کرونا وائرس کے پھیلائو کو کسی قدر روکا جا سکتا ہے۔ چین نے اس تدبیر کو بروئے کار لا کر ووہان میں کرونا پر قابو پایا ہے۔ جن ملکوں میں کرونا کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان ہو رہا ہے ان کی سستی اور غفلت نے یہ دن دکھایا۔ وزیر اعظم کے کچھ ساتھی اور بعض اپوزیشن رہنما انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ مکمل لاک ڈائون کر دیا جائے۔ وزیر اعظم شاید خود بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ضروری اقدامات سے پہلے ایسا کرنے کو ایک نئی مصیبت تصور کرتے ہیں۔ ملک بھر میں اکثر کاروبار بند ہونے کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے لیے چولہا گرم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ریاست نے فرد سے جب سماجی معاہدہ کیا تو اس میں یہ ذمہ داری بھی قبول کی تھی کہ اگر فرد کے پاس پیٹ بھرنے کے وسائل نہ ہوں گے تو ریاست اسے روٹی فراہم کرے گی۔ وزیر اعظم جس ریاست مدینہ کی مثال پیش کرتے رہتے ہیں اس کے حکمران حضرت عمر فاروقؓ یہ سوچ کر لرز اٹھتے ہیں کہ فرات کے کنارے اگر کسی کتے کا پلا بھی پیاس سے مر گیا تو کہیں اللہ تعالیٰ ان کو ذمہ دار نہ ٹھہرا دے۔ کرونا اپنے اثرات کے حوالے سے نائن الیون سے بڑی آفت ہے۔ اس آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو آگے بڑھنا ہو گا، ریاست پاکستان کے پاس جو وسائل ہیں انہیں مستحق افراد کی مدد کے لیے خرچ کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 1200ارب روپے کا امدادی پیکج منظور کر لیا ہے۔ اس پیکج میں صرف مزدور طبقے کے لیے 200ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ عوام کو سستی اشیائے خورونوش کی فراہمی کے لیے یوٹیلیٹی سٹور کو 50ارب روپے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب انتظامات اپنی جگہ لیکن کرونا سے متاثرہ افراد اور دیگر آبادی کو اس کے اثرات سے بچانے کے علاوہ بیروزگار ہونے والے افراد کے کھانے پینے کا انتظام مزید کچھ ہفتوں تک برقرار رکھنا مشکل ہے۔ پاکستان کے ایثار پیشہ عوام نے زلزلوں اور سیلابوں کے دوران دل کھول کر متاثرین کی مدد کی ہے۔ اہل ثروت اب بھی اپنی استعداد کے مطابق افلاس زدہ طبقات کو امداد فراہم کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کرونا ریلیف فنڈ قائم کر کے خیر اور بھلائی کی انفرادی کوششوں کو ایک قومی تحریک کی شکل دینے کی کوشش کی ہے یہ فنڈ ہر مستحق پاکستان پر خرچ ہو گا لہٰذا اس کے لیے سب کو ریاست کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔