رات ایک چینل پر خاں صاحب کے آتش بار قصیدہ خواں کو یہ کہتے سنا کہ کرپشن بڑھ گئی ہے اور اس کے نرخ بھی بالا ہو گئے ہیں۔ یہ خبر نہیں۔’’اعترافی شکوہ‘‘ کے لئے خبر اس لئے نہیں کہ عوام کو پہلے ہی پتہ چل چکا ہے۔ دوران بحث خاں صاحب کے دیرینہ صاحب اسلوب قصیدہ نگار عالم ناراضگی میں یہ کہتے پائے گئے کہ انہیں ایک اعلیٰ انٹیلی جنس افسر نے بتایا ہے کہ خاں صاحب کی پارٹی میں آدھے… ہیں اور آدھے کرپٹ۔خالی جگہ میں استعمال کیا گیا لفظ فاضل قصیدہ نویس نے بڑی سلاست سے استعمال کیا لیکن بہرحال یہ اخبار ہے ٹی وی نہیں اس لئے جگہ خالی چھوڑنا پڑی۔ آمدم برسر مطلب ‘ کرپشن اور کرپٹ کے لفظ اچھے نہیں ہیں‘ اچھی بات یہ ہو گی کہ انہیں اچھے لفظوں سے بدل دیا جائے۔ پھر فقرے یوں ہوں گے کہ خان صاحب کے آنے کے بعد ایمانداری بڑھ گئی ہے اور ایمانداری کے نرخ بھی اور یہ کہ خاں صاحب کی پارٹی میں آدھے وہ ہیں اور باقی آدھے ایماندار ۔ تو عقدہ حل ہو گیا‘ جب ایسی پارٹی حکومت میں آ جائے جس کے آدھے لوگ وہ ہوں اور آدھے ایماندار ۔تو ایمانداری کا فروغ منطقی نتیجہ ہے۔ ویسے قصیدہ خوان حضرت رعایت کر گئے ورنہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اکا دکا (شاید) کے سوا وہاں سبھی ایماندار ہیں اور سبھی کے ’’وہ‘‘ ہونے میں بھی شک کم ہی ہے۔ ایمانداروں کی کرپشن کے خلاف جنگ بھی زوروں پر ہے اور یہ پہلی نہیں‘ پانچویں جنگ ہے۔ اس سے پہلے کرپشن مٹانے کے لئے چار چار ایماندار چار چار شاندار جنگیں لڑ چکے۔ قبلہ ایماندار اول ایوب خاں قبلہ یحییٰ خان ‘ قبلہ ضیاء الحق خاں اور ایماندار چہارم مشرف خاں کرپشن کے خلاف جنگ ایمانداروں کا پرانا آزمودہ اور سب سے کاٹ دار ہتھیار ہے جس سے قومی مفاد پورے کرنے میں ازحد مدد ملتی ہے۔ یہ جنگ خامس البتہ کچھ الجھنوں کا شکار ہو گئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ کابینہ کا اجلاس 9گھنٹے جاری رہا‘ ماضی کی کسی حکومت نے اتنا طول طویل اجلاس نہیں کیا۔ کہتے ہیں ایسے لمبے لمبے اجلاس جنگی کونسل کے ہی ہوا کرتے ہیں ‘ایسا ہے تو پھر ایماندار خاں پر یہ الزام سراسر غلط ہے کہ وہ حکومت کو کھیل تماشے کے طور پر چلا رہے ہیں۔ وہ تو اتنے سنجیدہ ہیں کہ امور حکومت جنگی بنیادوں پر سرانجام دے رہے ہیں۔ اسے جنگ خامس کی مثبت باقی پروڈکٹ سمجھئے۔ اجلاس میں وزیروں کی کارکردگی جانچی گئی ‘ شاید دیر لگنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کسی حجام کی دکان پر ایک ایسے صاحب آئے جن کے سر پر بال بس خال خال ہی تھے۔ حجام نے کہا دوگنے پیسے لوں گا پوچھا کیوں‘ بولا آدھے دام بال ڈھونڈنے کے‘ آدھے کاٹنے کے۔ بہرحال سب وزیر پاس ہو گئے‘ سب کو صفائی کے دس بٹہ دس نمبر ملے۔ کارکردگی کی سلیٹ ایسی صفا چٹ تھی کہ دس بٹا دس دیتے ہی بنی۔ وزراء نے فرمائش کی خاں صاحب آپ بھی تو دس بٹا دس ہیں۔ خاں صاحب نے فخر سے سر جھکا لیا۔ ٭٭٭٭٭ سنا ہے خاں صاحب نے تیسری مرتبہ ہموار میدان کا مطالبہ کیا ہے۔ پہلی مرتبہ انہوں نے الیکشن کے لئے ہموار میدان کا مطالبہ کیا ۔ نواز کو نااہل اور مسلم لیگ کو بے دست و پا کر کے بات مان لی گئی پھر مطالبہ کیا کہ گنتی کا میدان بھی ہموار کرو‘ سو 25کی رات 25کے 110کر کے یہ فرمائش بھی پوری کی گئی۔ اب مطالبہ یہ ہوا کہ سب کو اندر کرو سنجی گلیوں میں اکیلا پھروں گا۔ تب کارکردگی ہو گی نیز دو تہائی اکثریت کا بندوبست بھی کرو۔ صفائی شروع ہو گئی ہے گمنام کال آتی ہے اور بندہ کرپٹ قرار پاتا ہے ۔ نیا دستور بھی کس کمال کا ہے ۔ثبوت کی ضرورت نہ شہادت کی‘ بس الزام لگائو اور اندر کرو۔ اطلاع ہے کہ دو اڑھائی مہینے تک مطلوبہ خلا ’’پیدا‘‘ کر دیا جائے گا۔ لمبی فہرست گومسلم لیگ والوں ہی کی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے بھی خاصے پکڑے جائیں گے۔ محض زرداری نہیں‘ بلاول کے لئے بھی پنجرہ تیار ہے ۔وزیر اطلاعات کو رجال غیب نے اطلاع دی کہ زرداری محض گرفتار نہیں ہوں گے نااہل بھی کئے جائیں گے۔ انہوں نے یہ اطلاع عوام کو ان لفظوں میں دی کہ زرداری آخری الیکشن لڑ چکے خواجہ برادران کی گرفتاری کی اطلاع شیخ جی دو مہینے پہلے ہی دے چکے۔ ٭٭٭٭٭ خاں صاحب نے سرکاری اساتذہ کو بعداز سکول پڑھانے سے روک دیا ہے۔ فیصلہ ہوا ہے وہ نہ ٹیوشن پڑھا سکیں گے نہ اکیڈمیوں میں کلاس لے سکیں گے۔اس حکم کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔ 1۔ سب کو رلائونگا‘ والا عہد۔ 2۔ انسداد روزگار مہم۔ 3۔ تعلیم مکائو پراجیکٹ۔ اس موخرالذکر نکتے پر پختونخواہ میں عدیم النظر کامیابی تو سب نے دیکھ لی۔ خود حکومتی بیان کے مطابق سینکڑوں سرکاری سکول بندہو چکے باقی ماندہ پر عالم نزع ہے۔ چھ ماہ پہلے تک ان کی انرولمنٹ میں 35فیصد کمی ہو چکی تھی ۔ تعلیم صرف اشراف کے لئے ۔ یہ پالیسی مشرف نے دی تھی۔ اسے چار چاند اب لگیں گے۔ ٭٭٭٭٭ لاہور ملتان موٹر وے مکمل ہو گئی۔ حکومت نے کھولنے سے انکار کر دیا۔ اوکاڑہ سے کچھ لوگ لاہور آئے۔ ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تو اس پر شکوہ کیا۔ کہا’ کچھ لکھو کہ سڑک کھل جائے۔ ہمارے کہنے سے تنکہ نہیں ہلتا۔ سڑک کیا کھلے گی۔ بہرحال لکھ دیتے ہیں۔ یہ کہ ارے بھائی سڑک کھول دو‘ بھلے ہی اس کا نام موٹر وے کے بجائے کرتار پور ہائی وے رکھ دو اور بھلے ہی بڑا سا پتھر گاڑ کر لکھوا دو کہ یہ سڑک بڑے بزدار خاں کے حکم پر چھوٹے بزدار خاں نے تعمیر کی۔ عوام کو سہولت سے غرض ہے نہ کہ اس سے کہ کس نے بنوائی۔