کراچی بندرگاہ جو ایک زمانے میںدنیا بھر کے تاجروں اور صنعت کاروں کی آنکھ کا تارا تھی ، آج کل ایسی خوف ناک خبریں اگل رہی ہے کہ عالمی جہازرانوں نے اپنے جہازوں کے رخ دوسری بندر گاہوں کی طرف کرلئے ہیں۔ جس طرح کرونا وائرس پھیلنے کے بعد چین کی چمچماتی بندرگاہیں درآمدات وبرآمدات کے لئے شجر ممنوعہ ٹھہر گئی ہیں اور دنیا کو ایک موقع مل گیا ہے کہ وہ اقتصادی طور پر ابھرتی ہوئی اس عالمی قوت کو معاشی طورپر تباہ کر نے کا یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دے۔ اسی طرح کراچی کی عظیم بندر گاہ بھی ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے دھیرے دھیرے اپنی عالمی ساکھ سے ہاتھ دھورہی ہے ۔ کراچی کی قدیم بندرگاہ پرپچھلے پانچ دن میں جہازوں کی آمدورفت مشکوک رہی اور خدشہ تھا کہ اگر چند روز مکمل بند رہتی تو اس بندش سے پاکستان کو اربوں روپے کے زرمبادلہ کے مزید نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔کراچی اپنی قدیم بندرگاہ کے حوالے سے خلیج اورجنوبی ایشیا سمیت کئی اہم ملکوں اور خطوں کے لئے معاشی دروازہ ہے جس کے راستے پاکستان درآمدات وبرآمدات کا 60 فیصد مال اور سازوسامان ترسیل ہوتا ہے۔ یوں تو یہ بندرگاہ محدود پیمانے پر تالپوروں کے عہد سے بھی پہلے فعال تھی لیکن جب 1843ء میں انگریزوں نے ہند کے بعد سندھ پربھی اپنا تسلط جما لیا تو اس شہر اور اس کی قدیم بندرگاہ کی بھی قسمت جاگ اٹھی۔ اس تاریخی بندرگاہ کو ترقی دینے کے پیچھے انگریزوں کے مفادات کھلے راز کی طرح تھے ۔ انہوں نے یہاں سے گندم، روئی، تیل کے بیج،اون اور ہڈیوں اور دوسری اہم اشیاء اپنے ملک برآمد کرنے کے لئے اس فطری بندرگاہ کواس خطے کی قیمتی پیداوار کی نقل وحرکت اور ترسیل کیلئے اہم ذریعے کے طور پر استعمال کیا۔انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرکمان یہاں مسلح افواج کے توسط سے اپنے پائوں سیدھے کر لئے تو انگریزوں نے اسے 1857ء میں ایک جدید بندرگاہ کی شکل دے دی۔ کراچی بندرگاہ کے بارے میں جاننے کے لیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو قدیم تذکروں میں سب سے پہلے عرب سیاح سلیمان ال مہری نے 1511ء میںاپنی سفرگزشت میں ’’راس الکراشی ‘‘کے عنوان سے اس تاریخی بندرگاہ کاتفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔وہ پسنی سے سمندر کے راستے کراچی آیا تھااور یہاں اس نے خاصا وقت گزارا۔ چند سال بعد ترک عثمانی کیپٹن سیدی علی رئیس نے اپنے سفر نامے ’’ملکوں کا آئینہ‘‘ میں تفصیل سے اس قدیم بندرگاہ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کراچی کی یہ بندرگاہ کاروباری اعتبار سے اس زمانے میں بھی خاصی اہمیت کی حامل تھی۔1728ء میں یہ بندرگاہ طوفانی بارشوں کی بھینٹ چڑھ گئی تو اسے 1729ء میں ازسرنو تعمیر کیا گیا اور اسے کولاچی بندرگاہ کا نام دیا گیا۔ یوں تو تالپوروں کے دور 1820ء میں بھی یہ بندرگاہ تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے بڑی کشش رکھتی تھی اورانیسویں صدی کے آخری سالوں میں کراچی کی بندر گاہ ایک اہم بین الاقوامی بندرگاہ کی حیثیت حاصل کرچکی تھی اور اس کا چرچا چار سو پھیل چکا تھا۔انگریزوں کے آنے کے بعد تو پھر یہ ایک ایسی بندرگاہ بن گئی کہ دنیا بھر سے بڑے بڑے جہازرانوں اور جہازوں نے کراچی کا رخ کرلیا اور عالمی نقشے پر اس کی اہمیت دوچند ہوگئی۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس بندرگاہ کی وہ ساکھ برقرار نہ رہ سکی جو انگریزوں کے قبضے کے دور میں تھی۔ پچھلے دنوں ایک پراسرار واقعہ نے اس بندر گاہ کے مستقبل پر ایک کاری ضرب لگائی ہے جو قومی معیشت کے لئے لمحہ فکریہ ثابت ہو سکتی ہے۔کراچی بندر گاہ کی نواحی آبادیوں میں زہریلی گیس پھیلنے سے ایک محتاط اندازے کے مطابق دودرجن سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ اس سے متاثرین کی تعداد 300سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اتوار 16فروری کی شام کراچی بندرگاہ کی قرب وجوار کی آبادیوں کے لئے خوں آشام ثابت ہوئی کہ جب اچانک راہ چلتے لوگ سڑکوں اور گلیوں میں ایسے گرنے لگے جیسے پت جھڑ کے موسم میں درختوں سے خشک پتے جھڑتے ہیں ۔ اس سانحہ میں پہلے ہی روز 8افراد جاں سے گزر گئے۔ پھر یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ بدھ 19 فروری تک سرد خانے میتوں اور اسپتال پراسرار مہلک گیس کے متاثرین سے بھر گئے۔ گیس کے اثرات کیماڑی، کلفٹن،باتھ آئی لینڈ،ہجرت کالونی،سلطان آباد،ریلوے کالونی، کھارادر، مسان روڈ ،فشریز،مچھر کالونی اور دیگر قریبی علاقوں تک پھیل گئے ۔ ہماری بے حسی کی حد تو یہ ہے کہ پہلے تین دنوں میں وفاقی حکومت ،سندھ حکومت، کراچی پورٹ ٹرسٹ کی انتظامیہ یا کوئی ادارہ اس زہریلی گیس کے ماخذ کا کھوج لگانے اور اس سے متاثر ہونے والے شہریوں کی خبرگیری کے لئے حرکت میں نہیں آیا بلکہ ہر ادارہ اور اس کے ذمہ دار لوگ اپنی جان چھڑانے کے لئے اوٹ پٹانگ بیانات دے کر شہریوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہے۔ واقعہ کے دوسرے روز کے پی ٹی ٹرسٹ کے چیئرمین میڈیا پر نمودار ہوئے اور اپنی گلو خلاصی یہ کہہ کر کرا لی کہ اس پراسرار گیس کے اخراج کا معاملہ بندرگاہ سے کسی طرح نہیں جڑتا ، اگر یہ گیس بندرگاہ پر لنگر انداز کسی جہاز یا اس کے کنٹینر سے خارج ہوتی تو کے پی ٹی کے ملازمین بھی اس سے متاثر ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے انہوں نے کسی قسم کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی کوئی ایسا اقدام اٹھایا کہ اس زہریلی گیس کے اخراج کے معمے کو حل کرنے میں کوئی مدد ملتی۔ کراچی سے منتخب رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر برائے جہاز رانی سید علی زیدی بھی اسلام آباد میں بیٹھ کر بھاشن دیتے رہے اور تیسرے چوتھے دن کراچی آکر اجلاس اجلاس کھیل کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا ،تب تک دو درجن سے زائد افراد ان کی اور ان کی وزارت کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ البتہ رینجرز کے جوان اگلے ہی روز متاثرہ علاقوں میں پہنچے اور شہریوں میں مفت ماسک تقسیم کئے۔ دوسری طرف چوربازاروں کی منافع خوری اور انسانیت سوز حرکت یہ کی کہ عام حالات میں پانچ روپے میں بکنے والا ماسک 30 اور 40 روپوں میں بیچنے لگے۔واقعہ کے تیسرے روز وزیر اعلیٰ سندھ نے اس سانحہ پر کابینہ اور افسران کی خصوصی بیٹھک کی اور متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے متاثرین کو تسلی دی۔انہوں نے اسپتالوں میں داخل مریضوں کی عیادت بھی کی۔ بندرگاہ کے متاثرہ علاقوں میں تین روز بعد حالات معمول پر آنا شروع ہوگئے لیکن خطرناک گیس کا ماخذ سمجھنے والے جہاز کی تاحال بندرگاہ پر موجودگی کے باعث کیماڑی اور گردونواح کے مکینوں میں خوف وہراس موجود ہے ۔ گو کہ اس واقعے کے بعد بندرگاہ پر جہازوں کی آمد ورفت کسی حد تک معمول کے مطابق جاری رہی لیکن ہینڈلنگ اور ملک کے بالائی شہروں کے لئے گاڑیوں کی نقل وحمل منگل 18فروری تک متاثر رہی۔ کسٹم اکے دفاترمیں بھی ملازمین کی حاضری کم رہی اور اس دوران کسٹم ایجنٹس بھی غیر فعال رہے۔بندرگاہ پر کام کرنے والے مزدور اور کے پی ٹی ملازمین کی ایک بڑی تعداد کیماڑی کے علاقوں میں رہائش پذیر ہے جس کی وجہ سے بندرگاہ پر درآمدات وبرآمدات متاثر ہونے کی وجہ سے قومی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے لیکن اس سے بڑا نقصان قومی بندرگاہ کی ساکھ کو پہنچا ہے اور تاحال دو درجن سے زائد افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والی گیس کے بارے میں حتمی رپورٹ سامنے نہ آنے کی وجہ سے کے پی ٹی ،صوبائی اور وفاقی حکومت کا امیج ملکی اور بین الاقوامی سطح پرمسخ ہورہا ہے۔ مزید معمولی سی غفلت بھی کراچی بندرگاہ کی بین الاقوامی حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے اور بین الاقوامی جہازوں کو آمد ورفت کے حوالے سے خدانخواستہ کوئی منفی ایڈوائزری جاری ہو گئی تو ملکی تجارت جو پہلے ہی آکسیجن ٹینٹ میں ہے ، کا بٹھہ بیٹھ جائے گا۔