کیا واقعی ابھی چند ایسے انسان باقی ہیں،جن کے الفاظ کسی مرہم سے کم نہیں۔جن کی دلجوئی فریب کے لبادے سے ماورا محسوس ہوتی ہے۔جو غم کی کیفیت میں ایسے ساتھی کی طرح ساتھ کھڑے ہوتے ہیں،کہ کسی طور دکھاوے کی جھلک نمایاں نہ ہو۔پھر ایسی توقع اس انسان سے لگانا،جو اقتدار کے تخت پر براجمان ہو اور پورا ملک اس کے احکامات کے تابع۔ یہ باتیں خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہیں۔ ایسے میں خیالات کی یہ دھول چالیس سالہ خاتون کے تعارف کے ساتھ ہی چھٹ گئی۔ یہ تعارف مجھ سمیت ہر مسلمان کے ساتھ ہے۔ ایک طرف کج فہموں کا اسلاموفوبیا اور دوسری طرف نیوزی لینڈ کی چالیس سالہ وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن۔جو مسلمانوں کے درمیان اس محبت سے آئی کہ ہر اس خدشے اور خیال کو روند ڈالا، جس کا ذکر میں آغاز کی سطر پر بیان کر چکی۔ پندرہ مارچ 2019 کے سانحے کو دو برس بیت چکے۔ مگر اس دہشت ناک منظر کی بد ترین یاد آج بھی ذہن پر نقش ہیں۔ جب ایک نیم پاگل گورے نے دو مساجد کے اندر موجود اکاون نمازیوں کو شہید کر ڈالا۔جن میں سے نو کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اسلامو فوبیا سے جڑا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، نہ ہی آخری تصور کیا جا سکتا ہے۔حالات کی سمت کا ادراک ہو، تو ایسے سانحات کو جیسنڈا آرڈرن کی طرز پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ "کوئی بھی الفاظ ان زخموں کو نہیں بھر سکتے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں مردوں،عورتوں اور بچوں کو ہم سے چھین لیا گیا۔ الفاظ اس خوف کو ختم نہیں کر سکتے جو مسلم برادری کے دلوں میں بیٹھ گیا ہے۔ ہمیں اس واقعے سے خود کو ایک مضبوط اور متحد قوم بنانا چاہیے۔" خاتون وزیراعظم کے کرائسٹ چرچ سانحے کی دو سالہ یادگاری تقریب میں کہے یہ الفاظ ہمیشہ دلوں میں محفوظ رہیں گے۔ کہنے کو نیا ہو یا پرانا پاکستان، یہی دعوے سننے کو ہیں، ’’ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکل رہیں ہیں۔‘‘ایسی ترقی کو وہیں دفن کر دینا چاہیے ،جہاں پر ہمارے سیاستدان اخلاقیات، انسانیت اور احساس کو دفن کر چکے ہیں۔ آج تک عمران خان ساہیوال واقعے پر معصوم جانوں کو انصاف نہیں دلا سکے۔ جن بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کا آشیانہ جلا ڈالا انکو آج تک سینے سے نہ لگا سکے۔ ہزارہ برادری کئی دن تک پیاروں کے جنازوں پر آہ و بکا کرتی رہی، مگر ساتھ بیٹھ کر انکو دلاسہ نہ دیا جا سکے۔ جان کا خطرہ کسے نہیں؟ پھر وہ ہزارہ برادری ہو، عمران خان یا اب مریم نواز شریف۔کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ کیا یہی ہے وہ تبدیلی جس کی پاکستانی عوام خواہاں تھے۔ عمران خان پر تنقید بجا، مگر اپنا گریبان بھی جھانکنا ہو گا، ان سیاسی مخالفین کو، جو ماڈل ٹاؤن سانحے کا آج تک کوئی واضح بیان پیش نہ کر سکے۔ چند فرلانگ کا فاصلہ ہی تو تھا مگر عوام کا خادم شہباز شریف وہ چیخ و پکار نہ سن سکا ،جس میں 14 جانیں نگل لی گئیں، بے نیاز رہا۔ چوک چوراہوں پر عمران خان سے حساب مانگنے والوں نے اپنا حساب کبھی نہ دیا۔ خود کو پارٹی سمیت مریم نواز مستقبل کے وزیراعظم کے طور پر دیکھتی ہیں۔کبھی اتنی اخلاقی جرات کا مظاہرہ بھی کریں کہ جائیں ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے پاس اور دلجوئی کریں۔ جیسنڈا آرڈرن کی طرح۔باتوں کے جال بننا آسان، کام ہے بہ نسبت زخموں پر مرہم کے۔ پاکستانی سیاست کے اس دھندے میں سبھی نے کوئی نہ کوئی کارڈ کھیلا۔ مظلومیت کارڈ نمایاں ہے۔ مگر عمران خان نے تو ایسا نعرہ لگایا کہ ہر مسلمان جان کی بازی لگا جائے۔ ریاست مدینہ۔ کیا ایسی تھی ریاست مدینہ؟ کیا حضور نبی اکرم ﷺاور اصحاب رسول ؓمعاملات کو ایسے نمٹاتے تھے؟ کیا مدینہ منورہ میں ایسا نظم و نسق تھا؟ کیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج تھا؟ نہیں عالی جناب عمران خان صاحب، وہاں قانون ایک تھا۔مظلوم کی آواز دبانے کی جرات کسی میں نہ تھی۔چادر اور چار دیواری کی حفاظت کی جاتی تھی۔یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھا جاتا تھا۔ فریادی کی فریاد سنی جاتی تھی۔کسی عہدے پر بٹھانے سے قبل ہی مکمل تربیت کی جاتی تھی۔ یہ تھی ریاست مدینہ۔ قائد اعظم سے ایک بار پاکستان کے طرز حکومت بارے پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا۔ "پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا تھا۔" افسوس ہم نے ان اصولوں کو بھلا دیا اور مغربی معاشرے بیشتر معاملات میں انہی اسلامی اصولوں سے رہنمائی لیتے ہیں۔ قومیں ایک دن میں نہیں بنا کرتیں لیکن قوموں کی تربیت اور معاشرے کی تشکیل اسی طرز پر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ہماری سیاست میں ایسے معاشرے کی تعریف تو ہو سکتی ہے، تقلید نہیں۔ ایک اور موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے "ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے ،اتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے۔ جیسے سونا آگ میں تب کر کندن بن جاتا ہے۔" شکریہ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم۔ آپ نے غیر مسلم ہونے کے باوجود مسلمانوں سے جس طرح اپنا تعارف کروایا وہ متاثر کن ہے۔ دنیا ابھی بھی اچھے انسانوں سے خالی نہیں ،جن کے الفاظ ایک مرہم کی مانند ہیں۔ جو فریب کے لبادے سے ماورا ہیں۔ جو غم زدہ کو سینے سے لگا کر اس کا غم حقیقت میں بانٹ لیتے ہیں۔ جن کی آنکھ میں نمی اور آواز میں لرزش سچائی اور خلوص کا پیغام ہے۔" شکریہ جیسنڈا آرڈرن۔"