وزیر اعظم عمران خان اور کسان نمائندوں کی ملاقات میں زراعت کو ترقی دینے کی متعدد تجاویز پر تبادلہء خیال کیا گیا ۔اس ملاقات کو اس اعتبار سے اہمیت حاصل ہے کہ وزیر اعظم نے کسانوں کے مسائل سرکاری حکام کی رپورٹس کی بجائے براھ راست جاننے کی کوشش کی ۔ کسان نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اقتصادی نمو میں زرعی شعبے کے اہم کردار کو سراہا اور کہا کہ زرعی شعبہ ملکی ترقی کے لئے حکومت کی اولین ترجیح ہے، انہوں نے کاشتکاروں کو یقین دلایا کہ کسانوں کا استحصال کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ان کے بقول منافع اور منافع خوری میں فرق ہوتا ہے ،حکومت کسانوں کو گٹھ جوڑ اور مافیا کے استحصال سے تحفظ فراہم کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی زراعت اور صنعتی شعبوں کی وسیع تر ترقی سے منسلک ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ وہ کسی لابی کا حصہ ہیں اور نہ ہی ان کے پاکستان میں کوئی کاروباری مفادات ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے، بدقسمتی سے ملک ناانصافی کی وجہ سے ترقی سے ہٹ کر تنزلی کی طرف گیا ہے، انصاف سے ہی قومیں ترقی کرتی ہیں۔پی ٹی آئی کے سامنے قومی معیشت کی حالت مثالی نہ تھی،برآمدات کم اور درآمدات زیادہ تھیں،قرضوں کے بوجھ سے معیشت کا دم گھٹ رہا تھا،کسان زراعت ترک کر کے زمینوں کو ہاوسنگ سوسائٹی بنانے پر تلا ہوا تھا ۔ کسانوں کو ان کی فصلوں کا معاوضہ نہیں مل رہا تھا اور جو مقررہ امدادی قیمت ہوتی تھی وہ بھی نہیں ملتی تھی۔گزشتہ برس آٹا ، گندم اور چینی کے بحران بتاتے ہیں کہ خرابی کسان کی سطح پر نہیں بلکہ انتظامی اور مارکیٹ پالیسیوں میں پنہاں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مختصر مدت میں زرعی شعبہ پاکستان کو ترقی دلا سکتا ہے،حکومت نے حالیہ قانون بنا کر کسانوں کو گنے کا پورا معاوضہ مقررہ وقت میں دلوایا ہے جس سے کسانوں میں خوشحالی آئی ہے، فصلوں کی پیداوار بہت اچھی رہی ہے۔ گنے، چاول، گندم اور مکئی کی پیداوار بہتر ہوئی ہے اور حکومتی پالیسیوں کا عمدہ پھل جلد مل گیا ہے۔ چین نے پاکستان کو لائیوسٹاک اور زراعت کے شعبے کی ترقی کیلئے تعاون کی پیشکش کی ہے، اس سلسلہ میں کسان تنظیموں کی مشاورت سے اقدامات کئے جاسکتے ہیں، مختلف زرعی آلات اور ٹیکنالوجی چین سے لاسکتے ہیں، چین دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے، سی پیک کی وجہ سے چین ہماری پوری مدد کر سکتا ہے۔ تحقیق اور بہتر بیج کے استعمال کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ صنعتوں میں ہماری زبردست شرح نمو رہی ہے، ملکی ترقی کیلئے صنعتیں بہت ضروری ہیں، صنعتیں جب تک نہیں بڑھیں گی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوگا اور قرضے واپس نہیں کئے جا سکیں گیتاہم صنعتی شعبے کی مدد کرتے ہوئے صنعتکاروں کو باور کروانا چاہئے کہ منافع اور ناجائز منافع میں فرق ہوتا ہے، منافع بے شک حاصل کیا جائے لیکن ٹیکس بھی دینا چاہئے۔ وزیراعظم نے درست کہاکہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ گٹھ جوڑ کر لیں اور مصنوعی قیمتیں بڑھا کر لوگوں کو مہنگی چیزیں فراہم کی جائیں اور کسانوں کو بھی ان کی پیداوار کا معاوضہ نہ دیا جائے۔ کسانوں کے مسائل میں بجلی کی قیمت اہم تصور ہوتی ہے ۔ٹیوب ویل اور دیگر آلات کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے ۔ شمسی توانائی کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ زرعی ٹیوب ویلوں کے نرخوں میں ریلیف دینے کے معاملہ کا جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ پاکستان میں 1960ء سے لیکر 2000ء تک زرعی شعبہ کی شرح نمو 4 فیصد رہی جبکہ 1998ء سے لیکر اب تک تقریباً 3 فیصد رہی ہے، کورونا کے باوجود ملک میں رواں سال مختلف فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے اور اگلے سال کیلئے زرعی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد رکھا گیا ہے۔ گنے کے شعبے میں اجارہ داری ختم کی گئی ہے، زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کیلئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کا کسان اس لحاظ سے محرومیوںکا شکار رہا ہے کہ حکومتوں نے اس کی مدد کی خاطر صرف کھاد میں سبسڈی کی فراہمی کو کافی سمجھ لیا ۔جو بیج درآمد کئے جاتے ہیں ان میں کسان سے زیادہ مارکیٹنگ کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے، پیپلز پارٹی کے دور میں بی ٹی کاٹن کا بیج لایا گیا، بھارتی کسان اس کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے تھے لیکن یہ بیج کسانوں کو کیڑوں سے پاک بتا کر فروخت کیا گیا، حالیہ بر سوں کے دوران کپاس کی فسل کا زیر کاشت رقبہ اس وجہ سے کم ہوا ہے کہ کپاس پر نئی اقسام کے کیڑے اور سنڈیاں آرہے ہیں جن کی تلفی پر لاگت بہت بڑھ جاتی ہے۔ کسانوں کی فاضل پیداوار کون خریدے یہ سوال تاحال تشنہ جواب ہے، رحیم یار خان اور اس کے نواح میں اس سال سینکڑوں ٹن ٹماٹر پیدا ہوا۔اس سے ٹماٹر کی قیمت گر گئی، اس علاقے میں اگر کیچپ بنانے والے دو چار کارخانے قائم کر دئے جائیں تو منڈی میں نہ بکنے والے ٹماٹر کام میں لائے جا سکتے تھے ۔زراعت کی ترقی کے لئے ایگرو بیسڈ صنعت ضروری ہے تاکہ کسان کی محنت کسی مرحلے پر ضائع نہ ہو۔زراعت صرف بڑے زمیندار کا نام نہیں یہ چھوٹے چھوٹے لاکھوں کاشت کاروں کی معیشت ہے، بہتر ہو گا کہ وزیر اعظم بڑے کسانوں کے بعد مختلف علاقوں کے چھوٹے زراعت پیشہ افراد سے رابطہ کر کے ان کی ضروریات سے بھی آگاہی حاصل کریں گے۔رہی بات کسانوں کے استحصال کو روکنے کی تو اس کے لئے پالیسی اور نظام تشکیل دئیے بنا بات نہیں بنے گی۔