کیسے کیسے لوگ یہاں آتے رہے۔ کیسے کیسے اب بھی آتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کو عصرِ رواں کا عارف یاد دلاتا ہے کہ آدمی اتنا ہی مضطرب ہوتاہے، جتنا فطرت سے دور ہو اور اتنا ہی مطمئن، جتنا کہ اس سے ہم آہنگ اور یہ کہ آخرکار آدمی کو وہی ملتاہے، جو اس کی ترجیحِ اوّل ہو۔ پروردگار اگر کسی کی ترجیحِ اوّل نہیں تو کبھی وہ اسے پا نہ سکے گا۔ کہا جاتاہے کہ دنیا میں صداقت شعار اور دیانت دار لوگ نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ کم از کم برصغیر میں، جہاں ملوکیت، جاگیرداری اور غلامی کی ان گنت صدیوں نے انسانی اذہان پیچیدہ کر دیے ہیں۔ عدمِ تحفظ، احساسِ کمتری۔ اس کے نتیجے میں خود تنقیدی سے گریز،سہاروں اور بہانوں کی تلاش۔ کم ہی سہی،ہر گاؤں، ہر محلے اور ہر گلی کوچے میں کوئی نہ کوئی دیانت دا ر ضرور ہوتاہے۔ خالص بے ریا لوگ البتہ کمیاب نہیں بالکل ہی نادر ہیں، النادر کالمعدوم۔ ناصر درانی انہی لوگوں میں سے ایک تھے۔ خیال بھٹکتا ہے۔ ایسا ہی ایک اور آدمی یاد آیا۔ تونسہ شریف کا خواجہ کمال الدین انور۔ ربع صدی ہوتی ہے، مدینہ منورہ میں سبز گنبد کے سائے میں ہم کھڑے تھے۔ بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ متوجہ نہ ہوئے۔ یہ ان کا شعار نہ تھا۔ کبھی سینیٹر، کبھی قومی اسمبلی کے ممبر، وہ ایک وضع دار آدمی تھے۔ خواجہ کی بے رخی ذہن میں اٹکی رہی۔ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ کسی سوال کا جواب نہیں ملتا مگر اپنی جگہ سے وہ ٹلتا نہیں؛حتیٰ کہ حل تک جا پہنچے۔ اس سوال کا جواب یہ تھا کہ سبز گنبد کے قریں غیر ضروری بات چیت کو خواجہ روا نہ سمجھتے تھے۔ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ناصر درانی اور خواجہ میں ایک اور قدرِ مشترک یہ تھی کہ دونوں کم کلام تھے۔ سیدھی، صاف اور کھری بات کرتے۔ کوئی تامل، جھجک نہ ہچکچاہٹ۔ کبھی کوئی ناراضی، ذہنی تحفظ نہ تعصب۔ خواجہ تو اتنے بے ساختہ تھے کہ حیرت ہوتی۔ 1989ء کی تحریکِ عدم اعتماد کے ہنگام بے نظیر بھٹو نے ایک کروڑ روپے نقد دے کر پنجاب کے ایک سابق گورنر کو خواجہ صاحب کے ہاں بھیجا۔تب خواجہ مسلم لیگ میں شامل تھے۔ وزیرِ اعظم کی التجا یہ تھی کہ اپنی پارٹی سے وہ بے وفائی کریں۔ چرب زبان پیامبر اپنی بات مکمل کر چکا تو جواب میں خواجہ نے صرف یہ کہا ’’لڑھ نہ مار‘‘ فضول بات نہ کرو۔ عجیب بات یہ ہے کہ خواجہ نوازشریف کے عتاب کا شکار ہوئے تو بے نظیر بھٹو نے ان کی خدمت میں قومی اسمبلی کا ٹکٹ پیش کیا۔ صرف یہی نہیں، پے درپے حج سکینڈل سامنے آنے کے بعد ایک خالص آدمی کی تلاش شروع ہوئی تو خواجہ صاحب کا انتخاب کیا گیا۔ معلوم نہیں تازہ اعداد و شمار کیا ہیں،چند برس پہلے تک حج کے ایام پاکستان مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تیسرا بڑا گاہک ہوا کرتا۔ لگ بھگ ایک لاکھ عازمینِ حج کے لیے کرائے کی عمارتوں کا خریدار۔ خواجہ صاحب کا انتخاب بہترین میں سے بہترین تھا۔ ان کے بارے میں خیانت کا تصور بھی نہ تھا۔ جس دن تونسہ شریف میں اپنی گدّی انہوں نے سنبھالی تو چھ لفظوں پر مشتمل اپنے خطاب میں کہا تھا’’آج سے نذرانے بند، لنگر جاری‘‘ دیارِ حبیب سے خواجہ کو ایسی محبت تھی کہ وہیں ایک حادثے میں شہید ہوئے اور وہیں دفن۔ان سے میری ملاقات لیاقت بلوچ کے کمرے میں ہوئی تھی، جہاں بہت دن ہم اکٹھے رہے۔ لیاقت صاحب آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں تو ماحول میں ایک گداز پھیل جاتا ہے۔ جناب وقاص شاہ کے ہاں ایک تقریب میں خواجہ کے فرزند سے ملاقات ہوئی تو عرض کیا تھا: عمر بھر تمہارے باپ نے اپنی عزت پہ حرف آنے نہ دیا۔ کچھ اور نہیں تو ان کے وقار کا خیال ضرور رکھنا۔ خواجہ شیراز اب قومی اسمبلی کے ممبر ہیں اور وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے زیرِ عتاب۔ ناصر درانی بھی ایسے ہی تھے۔ ایک ذرا سا بھید بھاؤ بھی ان میں نہیں تھا۔ اس قدر سیدھے، سچے اور سادہ کہ یقین ہی نہ آتا۔ پولیس کے بدنام شعبے میں ایسا کوئی بھی آدمی جب ابھرتا ہے تو خوشبو کی طرح اس کی شہرت ہر طرف پھیل جاتی ہے۔پارٹی تشکیل دینے کے فوراً بعد عمران خان رحیم یار خاں پہنچے تو انہوں نے ایک پولیس افسر کا تذکرہ سنا، جس کے دروازے عامیوں پہ کھلے رہتے، جو کبھی کسی کی سفارش قبول کرتا اور نہ دباؤ۔ شہر کا شہر جس کے لیے رطب السان تھا۔ اس آدمی کا نام ذوالفقار چیمہ تھا۔ اس کے دونوں سگے بھائیوں ایم این اے نثار چیمہ اور سبکدوش افتخار چیمہ کی شہرت بھی یہی ہے۔ لگ بھگ بارہ برس ہوتے ہیں، ذوالفقار چیمہ کے خلاف ایک اخبار نے بے بنیاد خبر چھاپی۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو جسٹس افتخار چوہدری نے کہا اور بالکل سچ کہا تھا ’’اپنی دیانت کی میں قسم نہیں کھا سکتا لیکن جسٹس افتخار چیمہ کی امانت و دیانت پہ حلف اٹھا سکتا ہوں‘‘ وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے فوراً بعد عمران خاں نے جو فیصلے صادر کیے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ ذوالفقار چیمہ کا استعفیٰ قبول کر لیا جائے۔ چیمہ صاحب ان کے ایک احمق وزیر کی مداخلت پر نا خوش تھے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ عمران خان لائق اور دیانت دار لوگوں کی فوجِ ظفر موج رکھتے ہیں؛لہٰذا چیمہ صاحب کی انہیں کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس کے باوجود کہ پختون خوا میں پی ٹی آئی کی نیک نامی میں سب سے اہم کردار شاید ناصر درانی مرحوم کا تھا، ان سے چھٹکارا پانے میں عمران خاں نے ذرّہ برابر سستی کا مظاہرہ نہ کیا۔ پنج وقتہ نماز کے علاوہ بھی ہر روز’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ کی تلاوت کرنے والے کپتان نے سیاستدانوں کی بات مان لی اور ناصر درانی کو چلتا کیا۔ ان سے زیادہ کون جانتا تھا کہ ناصر درانی سفارش پر تقرر نہیں کریں گے، تبادلہ نہیں کریں گے۔ کبھی کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ اب انہیں عثمان بزداروں کی ضرورت آپڑی۔ اب انہیں چوہدریوں کی ضرورت تھی۔ اب انہیں ارکانِ اسمبلی درکار تھے۔ اب انہیں وزرا کو شاد رکھنا تھا۔ ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ اب صرف ایک ورد رہ گیا، وظیفہ رہ گیا، موقف اور طرزِ زندگی نہ رہا۔ عقیدہ تو سبھی کا ایک ہوتاہے۔سوال یہ ہے کہ جب امتحان درپیش ہو تو آدمی اپنے عقیدے پہ کھڑا رہ سکتاہے یا نہیں۔ زیادہ نہیں تو کوفہ میں پچانوے فیصد لوگ ضرور مسلمان ہوں گے جن کے دل حسینؓ اور تلواریں یزید کے ساتھ تھیں۔ امام زین العابدین نے جن کے بارے میں کہا تھا: اتنی اذیت مجھے کربلا میں نہیں پہنچی، جتنی اہلِ کوفہ کی خاموشی پر۔عمران خان کے زوال آغاز اسی دن ہو گیا تھا، جس دن ناصر درانی پر عثمان بزداروں اور چوہدریوں کو اس نے ترجیح دی تھی۔ اب ایک جنگل ہے اور اس میں بھٹکتا ایک مسافر۔ اور وہ عجیب آدمی ناصر درانی۔ ایسا با وفا، ایسا خالص، ایسا بے ریا۔ تیس برس پہلے وہ اس کمرے میں آیا تھا اور اپنا راستہ چن لیا تھا۔ انہی دنوں، جب ممتاز مفتی یہاں آیاکرتے۔کیسے کیسے لوگ یہاں آتے رہے۔ کیسے کیسے اب بھی آتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کو عصرِ رواں کا عارف یاد دلاتا ہے کہ آدمی اتنا ہی مضطرب ہوتاہے، جتنا فطرت سے دور ہو اور اتنا ہی مطمئن، جتنا کہ اس سے ہم آہنگ اور یہ کہ آخرکار آدمی کو وہی ملتاہے، جو اس کی ترجیحِ اوّل ہو۔ پروردگار اگر کسی کی ترجیحِ اوّل نہیں تو کبھی وہ اسے پا نہ سکے گا۔