آزاد خطوں کے مسلمان عید کے دن اپنے رشتہ داروں ،دوستوں اور پیاروں کے پاس جا کر ان سے عید ملتے ہیںلیکن ملت اسلامیہ کشمیر عید کے دن اپنے عزیزوں کی قبروں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں جنہیں گزشتہ 33 برسوں کے دوران درندہ صفت بھارتی فوج نے شہید کردیا ہے۔ یہ ہے کشمیرمیں تصورعید ۔رمزآشنااورمحرم رازعلامہ حسن البناء شہید ؒنے کیاخوب فرمایاکہ ’’تمہاری حقیقی عیداس دن ہوگی جس دن تمہاری سرزمینیںآزاد ہو گی۔ اوردنیا میںقرآن کی حکمرانی ہوگی ‘‘یقیناًاس دن نہ صرف ہماری حقیقی عید ہوگی بلکہ وہ دن امت مسلمہ کے لئے عہدآفریں بھی ہوگا کہ جب نبرآزما شیطانی طاقتوں کو عبرت انگیزشکست ہو گی اوراسلام کے نشاہ ثانیہ اوراوج اقبال کادوردورہ ہوگا۔ دنیاکے دیگرخطوں میں پائی جانے والی اسلامی تحریکات کے بشمول ملت اسلامیہ کشمیرطویل و صبر آزما جدوجہد میں جو قربانیاں پیش کر رہے ہیںوہ عظیم اور بے مثال ہیں۔ ظلم و جبراوربربریت کا کوئیہتھکنڈہ ایسا نہیں جو ہندو بھارت نے بے سرو سامان اور نہتے کشمیری مسلمانوں پر نہ آزمایا ہو لیکن بھارت کا ظلم خستہ دل کشمیری مسلمانوں کے اذہان میں کشمیرکاز سے ایمانی لگائوکو مستحکم اور مضبوط ہی کرتا چلا گیا اورآج کشمیرکا بچہ بچہ ببانگ دہل اس عہدکو دہراتا ہے کہ تحریک آزادی کشمیرکی کامیابی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور ہماری حقیقی اور سچی عید اس وقت ہو گی جب ریاست جموںوکشمیر بھارت کے استعماری تسلط سے آزاد ہو گی اور اس سرزمین سے توحیدحقیقی کا ڈنکا بج اٹھے گا۔وہ یہ اعلان کرکے بھارت کے بام ودرہلارہا ہے کہ ستم گر ادھر آہنر آزمائیں تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں 1990ء میں ملت اسلامیہ کشمیرکاجمود واضمحلال ٹوٹا،اسلامیان کشمیر نے اپنی منزل کا تعین کر دیا جہاد کشمیرکے لئے ایک صدائے رحیل بلند ہوئی۔ 32 برسوں سے لگاتارعیدکے موقع پربھی کشمیری مسلمانوںکا قتل وخون، مظالم ، محاصرے ،گرفتاریاں کے جھکڑ چل رہے ہیں ،گولیوں تڑتڑاہٹ ، گن گرج ہے اوربارودکی سماعت شکن تڑاخ پٹاخ آوازیںسنائی دے رہی ہیں ۔ دونوں عیدوں پر اہل کشمیر کا نت نئے کرب و ابتلائو ںکے ذریعے گھیرائو ہو رہا ہے۔عیدکے موقع پرکڑیل ،خوبصورت اورخوب سیرت کشمیری نوجوانوں کے اٹھتے جنازے قلب ناتواں پر آرے چلا رہے ہیں،بھارت تمام اخلاقی، انسانی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر کشمیرکے نہتے مسلمانوں پر گولیوں کی بارش کر رہا ہے، اپنی آوازبلندکرنے کے لئے ان پر تمام راستے مسدود کر دئے گئے ہیں ۔اس ظلم عظیم پردنیاکی خاموشی دیکھ کریہ امرمترشح ہورہاہے کہ انصاف و عدل کی اصطلاحیں بس قانون کی ضخیم کتابوں میں مدفون ہیں ، ناگفتہ بہ قہر سامانیوں کی تاویلیں ہو رہی ہیں۔ یہ کوئی سہل اورمعمولی بات نہیں کہ تین عشرے ہوئے مظلومین کشمیرکودن کاچین نہ رات کاآرام نصیب ، ان کی صبحیںا وران کی شامیں غم میں ڈوبی ہوئی ہیں، ہجوم در ہجوم آفات وآلام ہر سو انہیں گھیرے ہوئے ہیں، جس طرف نظراٹھاکردیکھیں توجابجا مقابر کی قطار، جنازوں کی تکرار، زخمیوں کی بھرمار سے کشمیر میں انسانیت لاچار ہے۔ ہر گھر نوحہ خواں ہے اورمسلمانوں کی یہ بستی ویران پڑی ہے ،سرمایہ ملت یعنی نوجوان خزاں کے تند جھونکوں کے نذر ہورہے ہیں۔ ہر کلمہ خواں زخموں سے چوراوررنج و غم سے نڈھال ہے ۔ اپنے جائزاورپیدائشی حق کامطالبہ کرنے والوں کی گردنیں زیر تلوارہیں جبکہ جرات ِاظہارصریحاََجرم اور سچ کی پکارمکمل طورپرگناہ عظیم قرارپاچکی ۔ غرض سرزمین کشمیرپرانسانیت خون آشامیوں میں بے حال ہے اور اس قدر پامال ہے کہ زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں۔ امت مسلمہ جسد واحدکی طرح ہے تو باہمی اخوت ، دوسروں کے دکھ درد کے احساس والی روح کے ساتھ زندہ رہنا ہی انسانیت ہے، امت کا ایک حصہ لہو لہان ہو تو پوری امت اس کا درد وکرب محسوس کرے اور باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔فلسفہ عید یہ ہے کہ یہ باہمی تعلقات کو مستحکم ،اسلامی اخوت ومحبت کو مضبوط ، اور امت کے شیرازے کو متحد کیاجائے ۔ عید یہ پیغام دے رہی ہے کہ عید تنہا خوشیاں منانے کا نام نہیں بلکہ اپنے آس پاس اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو خوشیوں میں شریک کرنا بھی ایمانی تقاضا ہے۔ کتنے مسلمان اغیار کے تعذیب خانوں میں مقید ہیں،سہارے چھیننے سے بچے، بوڑھے اورخواتین سے خوشی اوران کی مسکراہٹ چھین لی گئی ہے، اوروہ یہ دن مظلومیت کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ اگرچہ عید یہ پیغام دے رہی ہے کہ آزادبستیوں کے مسلمانوں پر اس وقت تک چین وسکون کی نیند حرام ہے جب تک کہ ہر مسلمان آزادی کے ساتھ اسلامی شعائر کا اظہار نہ کر سکتا ہو؟صلاح الدین ایوبی نے تو اس وقت تک نہ ہنسنے کی قسم کھا رکھی تھی جب تک کہ بیت القدس کو آزاد نہ کرایا جائے اور وہ کہا کرتے تھے کہ وہ شخص کیسے ہنس سکتا ہے جس کی بہنیں کافروں کے رحم وکرم پر ہوں؟ اپنی غیرتِ ایمانی اور حمیت دینی کو مہمیز دے کر، مظلوم مسلمانوںکے حوالے سے نہایت ہی حساس رہنا ایمان کا تقاضا ہے ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان خطوں میں بعض لوگ نشہ اقتدارمیں اس حدتک کافروں کی چاکری کررہے ہیں کہ کھلم کھلا مظلوم مسلمانوں کے بجائے ظالم کافروں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے آزادخطوںکے لئے عید احتساب وتجدیدِ عہد کا دن ہوتاہے، امہ سے وابستہ مظلوم مسلمانوں اورامت کے ایک ایک فرد کو اپنے جسم کا حصہ سمجھنے کے عہدکی تجدیدکا دن ہوتاہے، مظلوم مسلمانوں کی داد رسی اورانہیں اغیارکی غلامی سے نکال کر آزادی دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کے پختہ عزم کرنے کادن ہے،انکی غلامی اورانکے حالات بدکیسے کافورہوجائیں اس کااحساس پیداکرنے کا دن ہے ۔