کشمیر ایک مدّت سے انسانیت کی قتل گاہ بنا ہوا ہے۔ 17 برس گزر گئے ہیں اور تقریباً تین سے زیادہ نسلیں اپنا جان و مال دے کرآزادی کی اس جدو جہد کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔ وادی کشمیر جو ہمیشہ سے اپنے فطری حْسن کے حوالے سے سراہی جاتی رہی اب ظلم و بربریت کی مثال بن چکی ہے۔ یہ بہار رنگ زمین اپنے اندر اتنا لہو جذب کر چکی کہ اب تو اس پر کِھلتے گْل و بْلبل بھی لہو رنگ آنکھیں لیے سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ قتلِ بے جا کب ختم ہو گا؟ حیرت تو اْس وقت ہوتی ہے کہ جب انسانی حقوق کی بحالی کے علمبردار ادارے کمالِ بے نیازی سے ایک آدھ مذمت نامہ جاری کرکے خاموش ہو جاتے ہیں۔ عوامی سطح پر بھی اگرقریب سے دیکھیں تو خود کشمیری عوام میں بے شمار جماعتیں بن چکی ہیں جن میں سے بیشتر متحد ہوکر پالیسی وضع کرنے کی بجائے حقِ خود ارادیت کے نام پر پاکستان یا اس کی فوج کے حوالے سے ہرزہ سرائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ میرا تجزیہ غلط بھی ہو سکتا ہے کہ شاید انڈین انٹیلی جنس نے یہاں بھی اپنے پسندیدہ نمائندوں کو نوازنے کا نظام بنا رکھا یا پھر طویل اور مایوس کْن جدوجہد نے خاص مزاج کے لوگوں کو سب سے ہی بددل کرکے رکھ دیا ہے۔ جس کا ایک مظاہرہ تو حال ہی میں نظرآیا جس میں انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ خطہ کشمیر کے ماضی، حال اور مْستقبل کا جائزہ لیتے ہوئے پانچ نکاتی ایجنڈا پیش کیا جو امن کی منزل کی طرف بے حد خوش آئند قدم ہے۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ کئی برسوں میں پہلی بار کسی حکومتی نمائندے نے ارضِ پاکستان سے وفاداری نباہتے ہوئے باقاعدہ تحقیق کے عمل سے گزرنے کے بعد ایک دستاویز مرتب کی ،آئین اور اقوامِ متحدہ کے معاہدوں سے رہنمائی لیتے ہوئے بلندآہنگ لہجے میںآزادی کشمیر پر حتّمی فیصلہ کشمیری عوام کی رضا کے مطابق کرنے کی رائے دی ہے ،جسے عرفِ عام میں ’’حقِّ خود ارادیت‘‘ کہا جاتا ہے۔ان کی تجاویز میں اس پہلو پر بہت زور دیا گیا ہے کہ مقدمہ کشمیر موثر طور پرلڑنے کے لیے بے انتہا اہم ہے کہ پاکستان خود پیش رفت کرکے عالمی سطح پر موجود انسانی حقوق کی فعال تنظیموں کو معاونت کی درخواست کرے۔ ان تنظیموں کو پاکستان آنے کی دعوت دے تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر اورآزاد کشمیر کے درمیان موازنہ کر سکیں اور باہمی مباحث میں اْٹھنے والے پیچیدہ سوالوں کے جواب مل سکیں نتیجے میں تمام دْنیا کو پاکستان کی اس ضمن میں سنجیدگی کا پیغام جائے۔ ایک اور اہم تجویز ڈاکٹر شیریں نے دی ہے کہ حکومتی سطح پر اقوامِ متحدہ سکیورٹی کونسل سے اصرار کیا جائے کہ ایک ’’کمیشن آف انکوائری‘‘ تشکیل دیا جائے جوآزادانہ، تفصیلی اور جامع انویسٹی گیشن کرے پھر ان نتائج کی روشنی میں حتّمی فیصلے کیے جائیں۔ یوں مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے اپنے حل کی طرف جانے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی اہمیت کا اندازہ عربی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جمال خاشقجی کو تْرکی میں قائم عرب سفارت خانہ کے اندرآزادی اظہارِ رائے کی پاداش میں بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا۔ اگر اس قتل کے خلاف تسلسل سے عوامی و تنظیمی سطح پر پْرزور احتجاج جاری نہ رکھے جاتے تو جمال خاشقجی کے جسم کے خون آلود ٹکڑے سفیر کے دالان میں ہی دبے رہ جاتے اور پھر ایک بار اس موت کو ایک پْراسرار کہانی میں تبدیل کردیا جاتا۔ کیونکہ طاقتور کو طاقت کا اصل نشّہ تب ہی مسرور کرتا ہے جب وہ کمزور کی جان و عزّت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنی رعونت کے پیروں تلے روند نہ دے۔ یہ جنگ تو ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے کہا تھا کہ ؎ کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذنِ کلام ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں 24 اکتوبر کو کشمیر سے یک جہتی کے سلسلے میں کشمیر کونسل آف آسٹریلیا کے زیرِ اہتمام پارلیمنٹ ہائوس آف نیو سائوتھ ویلز، میں ایک بھرپور تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں سڈنی کے معززین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ درجِ ذیل سپیکرز نے مسئلہ کشمیر پر مختلف پہلوئوں سے اظہارِ خیال کیا۔ 1- Senator Lee Rhiannon, 2-David Shoebridge (MP Green Party),3- Kaysar Trad (Australian Islamic Council), 4- Professor Jeckelyn Troy (Sydney University), 5- Shaukat Musalmani (Labour Party), 6- Abbas Rana (Pakistan Association), 7- Abdul Ghafoor Butt (Kashmir Council), 8- Saeed Khan (Green Party). ان کے علاوہ پاکستانی ہائی کمشنر جناب بابر امین نے بھی مقالہ پیش کیا۔ یہ تقریب اس اعتبار سے اہمیت کی حامل تھی کہ آسٹریلیا کی تمام مقبول سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے مسئلہ کشمیر پرآواز بلند کی اور اقوامِ متحدہ کو متوجہ کرنے کے لیے قراردادیں پیش کیں۔ بالخصوص سینیٹر لِی رہیانن کی کوششیں اس لیے بھی قابلِ ستائش ہیں کہ انہوں نے عمران خان کی حکومت کے آتے ہی پاکستان کا دورہ کیا جہاں وہ آزاد کشمیر اور اسلام آباد میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر شیریں مزاری اور دیگر معاصرین سے ملیں ، دونوں شہروں کی مقامی سیاسی، سماجی اور طلبا تنظیموں سے ملاقاتیں کیں۔ بقول سینیٹر لی انہیں اس دورہ کے ذریعہ مسئلہ کشمیر کو سمجھنے میں بیحد مدد ملی اور اب وہ اس خطّہ میں بہت خلوص سے کشمیر کی غیر رسمی سفیر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں جس کے لیے ہم بطور پاکستانی مسلمان ان کے بے پناہ ممنون ہیں۔