قابض بھارتی فوجی اہلکارجب مقبوضہ کشمیرمیں ہوتے ہیں تونہتے کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کے لیے شیر بن جاتے ہیں لیکن جب یہی اہلکار مقبوضہ لداخ پہنچائے جاتے ہیں تو چین کی سرخ فوج دیکھ کر بکری بن جاتے ہیں ،ڈر ،سہم کر مورچوں میں چھپ جاتے ہیں اورباہر نکلنے کانام بھی نہیں لیتے ۔اگراس میں کسی کوشک ہے تووہ مقبوضہ لداخ میں بھارتی فوجیوں کی صورتحال کوسرچ کرلے۔ مقبوضہ لداخ میں پیگانگ جھیل اوردیگر کئی علاقوں پرچینی فوج کے مکمل کنٹرول لائن پرہندوستانی فوجی چینی فوج کے آفیسروں کوان کی قدم بوسی کرکے یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں صاب ہماری عزت کاسوال ہے یہاں سے واپس جانے کاکہہ رہے ہیں لیکن چین خم ٹھونک کربیٹھا ہواہے۔بھارتی منت سماجت پرمشتمل لگاتار5بار بریگیڈ کمانڈر سطح کی میٹنگیںجو ہر دفعہ 4گھنٹوں سے زائد وقت تک جاری رہیں لیکن چین کے صاف موقف کے باعث ناکام ہوگئی ہیں اوران میٹنگزکے کئی ادوار چلنے کے باوجودان سے کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔اب بھارت کی نظریں ماسکو پرمرکوزہیںکہ اس کے ذریعہ سے ثالثی کراکے چین کولداخ کے علاقوں سے واپس جانے کی درخواست کی جائے لیکن تادم تحریربھارت کی اس حوالے سے روس سے ہوئی بات چیت کا بھی کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوسکا۔علیٰ الرغم ہذاچین نے کہاکہ لداخ میںہی نہیں بلکہ اس کی فوج ارونا چل پردیش کی طرف بھی پیش قدمی کرے گی کیونکہ چین نے اروناچل پردیش کو کبھی بھارت کاحصہ تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ اسے چین کے تبت کا مشرقی حصہ سمجھتا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے مابین لداخ کے ساتھ ساتھ سکم میں بھی کشیدگی جاری ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان جیائو لی جن نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ ارونا چل پردیش چین کے تبت کا مشرقی حصہ ہے اور چین نے اسے کبھی بھی بھارت کا حصہ تصور نہیں کیا ۔انہوں نے کہا کہ علاقے میں بھارت کے 5 فوجی اہلکاروںکے لاپتہ ہونے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دے سکتے، کیونکہ انہیں معلوم نہیں کہ چینی فوج کو اس ضمن میں مطلع کیا گیا ہے کہ نہیں۔ خیال رہے کہ لداخ میں پیگانگ جھیل کے علاقے میں بھارت کے 5 فوجی لاپتہ ہوئے ہیں اور بھارت کویقین ہے کہ انہیں چینی فوج اچک کرلی گئی ہے ۔ بھارتی میڈیانے معنی خیزخاموشی اختیارکرتے ہوئے بھارت کے پانچ فوجی اہلکاروں جن میں ایک آفیسررینک کااہلکاربھی ہے کے اغواہونے کی کوئی خبرنشرنہیں کی لیکن اس دوران جب اروناچل پردیش کی قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن نے ٹوئٹر پر یہ خبرجاری کردی ،اس کے بعدمودی کابینہ کے ایک وزیر نے کہا کہ چینی فوج کو ہاٹ لائن پیغام بھیجا جا چکا ہے توپھربھارتی میڈیاکومجبوراََاپنی خفت مٹاناپڑی اورکہاکہ غلطی سے بھارت کے پانچ فوجی اہلکار رات کے اندھیرے میں چینی علاقے کی طرف گھس گئے اس کے بعد ان کاکوئی اتہ پتہ نہیں چل سکا۔ادھر پچھلے کئی دنوں سے لداخ کے دولت بیگ اولڈی میں بھارتی فضائیہ کی ایک بیس سے صرف تیس کلومیٹر کے فاصلے پر دپسنگ میں چین نے بڑی تعداد میں فوجیں تعینات کر دی ہیں۔ چین نے اس مقام پر فوجی ساز و سامان بھی جمع کر رکھا ہے۔ ادھر9ستمبر 2020ء کو لداخ کے گائوں بیوگانگ سے 30سالہ خاتون کی لاش گلگت بلتستان میں تھونگموس نامی مقام سے ملی۔جس کی شناخت خیرالنساء ساکنہ گائوںبیوگانگ ضلع لداخ کے طور پر ہوئی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ ماضی میں بھی کئی بار دریائے شیوک میں بہہ کر آنے والی لاشیں پاکستان کے ان علاقوں سے ملتی رہی ہیں۔تاہم آج جبکہ ہندوستان کے تعلقات چین وپاکستان سے بگڑے ہوئے ہیں اس طرح کامعاملہ ماضی سے مختلف بن تصورکیاجاتاہے ۔خیرالنساء کی موت کی اصل وجوہات معلوم نہیں اور ذرائع کے مطابق مقامی پولیس تحقیق کر رہی ہے کہ آیا خیرالنسا کی موت خودکشی ہے، حادثہ ہے یا قتل ہے۔ لداخ کے علاقے میں ایک دریاہے جو’’شیوک‘‘ کے نام سے جاناجاتاہے بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’موت‘‘ ہیں اور اسے یہاں کا خطرناک ترین دریا سمجھا جاتا ہے۔اس دریا میں ہر سال جہاں حادثات کا شکار ہو کر لوگ ہلاک ہوتے ہیں وہیں اس دریا میں خودکشی کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ دریا مقبوضہ لداخ کے علاقوں سے لاشیں اپنے ساتھ بہا لاتا ہے۔دریا کے ساتھ آنے والی ان لاشوں کی تدفین عام طور پر بلتستان کے علاقوں میں کر دی جاتی ہے۔ یہ تدفین امانتا کی جاتی ہے تاکہ کسی موقع پر ورثا میت کا مطالبہ کریں تو انھیں واپس پہنچائی جا سکے۔واضح رہے کہ دونوں سائیڈوں کے آمنے سامنے دوگائوں تھنگاور فرآونو کا فاصلہ صرف 10کلومیٹر ہے اگرچہ علاقے میں موجود کراسنگ نہایت قریب ہے اور1971سے پہلے جبری طورپردونوں منقسم ہوئے علاقے کے لوگ آرپارآتے جاتے تھے لیکن 1971کی جنگ کے بعد یہاں سے آمدورفت پر پابندی کے وجہ سے ہمیشہ واہگہ کا راستہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔سکردو سے لاہور کا زمینی فاصلہ تقریبا 984کلومیٹر ہے، لاہور سے واہگہ بارڈر تک 28کلومیٹر کے سفر کے بعد امرتسر داخل ہوتے ہیں اور امرتسر سے لداخ کے صدر مقام لیہہ تک یہ فاصلہ 898کلومیٹر ہے۔ بہرکیف بات ہورہی تھی کہ بھارتی گیدڑ فوج چینی افواج سے ڈرسہم کرمورچوں میں گھسی ہوئی ہے اورجب یہی اہلکاروادی کشمیرمیں ہوتے ہیں تونہتے کشمیریوں کاقتل عام کرنے میں شیر بن جاتے ہیں ۔ 4ستمبر2020ء جمعہ کوبھارتی آرمی چیف جنرل نرونے مقبوضہ لداخ کادودن کادورہ کیااس دوران انہوں نے کہا کہ ایل اے سی پر فی الحال صورتحال نازک اور سنگین ہے لیکن ہم اس کے بارے میں مستقل طور پر غور و خوض کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنی حفاظت کیلئے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔خیال رہے کہ متنازعہ جموںوکشمیرکے لداخ خطے میں نام نہاد حقیقی کنٹرول لائن ’’ایل اے سی ‘‘کوعبورکرتے ہوئے چین کی افواج لداخ کے ایک بڑے ایریامیں اندر آئی ہوئی ہے اوراس کی پیش قدمی لگاتارجاری ہے۔ 29اور 30اگست کی درمیانی شب کوچین نے لداخ میںتازہ پیش قدمی کرتے ہوئے لداخ کے ایک بڑے علاقے کواپنے کنٹرول میں لیا ہے۔ بھارتی اخبار THE HINDU)) کے مطابق اب تک چین نے لداخ میں ایک ہزارمربع کلومیٹر پر قبضہ جمایاہے ۔