اسلامیان جموںو کشمیرقابض بھارتی فوج کے حصاراوراس کے نرغے میں بدستوریرغمال ہیں اور پھڑپھڑارہے ہیں۔وہ ’’جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ والی اضطراری کیفیت کے شکار ہیں۔ 73 برسوں سے وہ لگاتار اقوام متحدہ کی زنجیر ہلانے کی کوشش بسیارکررہے ہیں،لیکن یہ زنجیر ایسی جگہ پر آویزاں ہے جہاں ایسٹ تیموراورجنوبی سوڈان کے مسیحیوںکے ہاتھ پہنچ توجاتے ہیں مگرارض کشمیرکے فریادیوں کے رسائی اس تک ممکن نہیں ۔چندبرس قبل اقوام متحدہ کی یہ زنجیرہل گئی اورمشرقی تیمور جوانڈونیشیاکاباضابطہ طورحصہ تھاکو ریفرنڈم کے ذریعے مسلمان ملک انڈونیشیاسے کاٹ کر الگ کردیاگیا۔عین اسی طرح جنوبی سوڈان کومسلم مملکت سوڈان سے کاٹ دیاگیااوردونوں خطوں میں مسیحی ریاستیں قائم کی گئیں۔شاطر ، عیار اور مکار بھارت کوہلہ شیری دینے کے لئے اقوام متحدہ کی یہ زنجیرایسی فصیل کے ساتھ نتھی ہے کہ اسلامیان کشمیر کی چیخیں بے قدری کے ساتھ واپس لوٹ آتی ہیں۔یہ زنجیرایسے ستم گروں فولادی ہاتھوں اور ابلیسی پنجوں میں ہے کہ جونہی مسلمانان کشمیرکے ہاتھ اس کے قریب پہنچ جاتے ہیں تووہ فورا،اس زنجیر کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔پھر اگر یہ کہاجائے کہ زنجیرنہیں شیطان کی آنت ہے توبے جانہ ہوگا۔ دنیا بھر میں نسل کشی کے ممکنہ واقعات پر نظر رکھنے والی امریکی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے21 نومبر 2020جمعہ کوباقاعدہ طورپر انتباہ جاری کر دیا کہ مقبوضہ جموں کشمیر اور بھارتی ریاست آسام میں مودی سرکار کی جانب سے بڑے پیمانے پر نسل کشی کا خطرہ درپیش ہے۔ جینو سائیڈ واچ نے کہاکہ کشمیرمیںقابض انتظامیہ کی جانب سے مسلط فوجی آمریت دراصل جابرانہ اقدامات کی ایک شکل ہے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا نظریہ ہندوتوا، اس کی واضح علامات ہیں۔بدنہادبدفطرت بھارت کی، سفاکیت،ظلم وبربریت کشمیرکے سواداعظم کیٔ شیردلانہ حوصلوں کوشکست دے سکااورنہ ہی انہوں نے فکری قلابازیاں دکھائی اورنہ نظریاتی پس ماندگی۔ تووہ ان منتقم المزاج کی شوچوں کا محور اسلامیان کشمیر کی ’’ جینو سائیڈ‘‘ پر ٹھرا۔ اب جبکہ جینو سائیڈ واچ کی رپورٹ منظر عام پر آ گئی ہے، عالمی رائے عامہ پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سلگتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ جینو سائیڈ واچ نے امریکی دارلحکومت واشنگٹن میں نسل کشی اور بھارت کے مسلمانوں کے 10 مراحل کے موضوع پر مباحثے کا انعقاد کیا گیا جس کا اہتمام انڈین امریکن مسلم کونسل کی جانب سے کیا گیا جبکہ مسلم نسل کشی میں بھارتی کردار کے چہرے کو بے نقاب کیا گیا۔بین الاقوامی ماہرین کی جانب سے کہا گیا کہ بھارتی حکومت کی نگرانی میں کروڑوں مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ ہے جبکہ مباحثے کے سربراہ جینو سائیڈ واچ نے کہا کہ بھارت میں حقیقتاً مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔ ڈاکٹر گریگری سٹینٹن کا کہنا تھا کہ کشمیر اور آسام میں مسلمانوں پر ظلم قتل عام سے پہلے کار مرحلہ تھا، بھارت میں انسانیت کیخلاف منظم جرائم کا سلسلہ جاری ہے۔جنیو سائیڈ واچ کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کو گرانا اور مندر تعمیر کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے اوردہلی فسادات میں پولیس نے سیکڑوں افراد کو حراست میں لیا۔ انسانی حقوق کے ماہرٹینارمریز نے کہا کہ مسلمانوں پر ظلم سے ان کی معاشی صورتحال بدتر ہو رہی ہے جبکہ تیشا سیتلواڈ نے کہا کہ بھارت میں مسلمان مستقل خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں، گائے کا گوشت فروخت کرنے کے جھوٹے الزامات پر ہجوم نے تشدد کیا۔ سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا عویدار اپنی 14 فیصد آبادی کو دبا رہا ہے، بھارت مسلمانوں کیا نسانی اور آئینی حق سے انکار کر رہا ہے جبکہ بین الاقوامی ماہرین نے بھارت میں 20 کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کے خطرے کا اظہار بھی کیا۔ اسے قبل 22 اگست 2019ء کوبھی جینو سائیڈ واچ نے اقوام متحدہ سے کشمیریوں کی نسل کشی رکوانے کا مطالبہ کردیاتھا۔ بھارتی قابض فوجی اہلکار کشمیرکے یمین ویسار میں نوجوانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔انہیں اپنے گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے اورپھرفرضی جھڑپیں رچا کرانہیں شہیدکیاجاتاہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سفاک فوج کی سفاکیت کا یہ بدستورسلسلہ جاری ہے اور ہردن مختلف بہانے تراشتے ہوئے کشمیری نوجوانوں کو شہید کیاجارہاہے۔لگاتار نام نہادسرچ آپریشن کی آڑمیں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیاجارہاہے۔ تنازع کشمیر پر اقوام متحدہ نے 73برس سے ایسی قرار دادیں منظور کر رکھی ہیں جن میں اہل کشمیر کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا۔ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی علاقہ شورش زدہ ہو اور قابض ملک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ آبادی کا اعتماد جیت لے، کشمیر کا معاملہ ایسا نہیں۔ کشمیری 1947 میں چاہتے تھے کہ پاکستان کے ساتھ الحاق ہو۔ کل کی طرح کشمیرکے سواداعظم کا آج بھی یہی مطالبہ ہے۔بھارتی بربریت کے باوجودملت اسلامیہ کشمیر کا بھارت سے آزادی کا مطالبہ مسلسل اور ان کی قربانیوں میںکوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کامطالبہ آزادی پہلے سے کئی گنازیادہ توانااورطاقتورہے۔ ایسے میں دوبرسوں میں دوبارمسلسل جینو سائیڈ واچ کی رپورٹس اس امرکوطشت ازبام کرتی ہیں کہ کشمیرکی صورتحال سنگین ہوتی چلی جارہی ہے ۔ بھارت جابرانہ ہتھکنڈوں سے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات پرامن ہیں اور معاملات پوری طرح اس کے قابو میں ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ کشمیر ایک بھسم کر دینے والے الائو کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دیا ہے۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ پاکستان نے تنازع کشمیر کو مذاکرات سے طے کرنے کے لیے بھارت کو بارہا دعوت دی۔ ایسی دعوت کے جواب میں بھارتی رویہ مایوس کن رہا۔ کسی ملک کی طرف سے اگر ثالثی کی بات ہوئی تو بھارت نے کشمیر کو تنازع تسلیم کرنے سے انکار کیا اور معاملے کو دوطرفہ بات چیت سے حل کرنے کا موقف دہرایا۔ یقینا کسی مخصوص طریقہ حل تک پہنچنے کے لیے کچھ مہلت درکار ہوتی ہے۔ بھارت اس طرح کی مہلت طلب کرتا تو تنازع کشمیر کی صورت کچھ اور ہوتی لیکن بھارت نے ہر بار پاکستان سے بات چیت بند کر کے دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کو بڑھاوا دیا۔