پوری دنیاکواس وقت ایک ہی فکردامن گیرہے کہ کس طرح کوروناوائرس کے عالمگیر عذاب سے نجات حاصل کرلی جائے ۔لیکن دنیاکوکیاپتاکہ اس کرہ ارض پرایک اورمہلک اورخطرناک وائرس بھی موجودہے جو ’’مودی وائرس ‘‘کے نام سے جاناجاتاہے اوراس وائرس کاہدف کشمیراورکشمیری مسلمان ہیں جبکہ بھارت کا کلمہ گو مسلمان بھی اس کاٹارگٹ ہے۔ مودی وائرس نے بدھ یکم اپریل 2020ء کوکشمیرپر ’’نئے ڈومسائل ‘‘کے نام پراپنا حملہ ایسے وقت میںکیا ہے کہ جب پوری دنیا کورونا وائرس کے حملے کی مدافعت میں اپنے تمام تر وسائل جھونک رہی ہے۔ گزشتہ 8ماہ سے بالخصوص کشمیری مسلمان جو مصیبتوں کے مارے اورموت وحیات کی کشمکش میں مبتلاہیں توایسے میں ان پرمودی وائرس کے تازہ حملے سے انکے کرب والم کی شدت مزیدبڑھ گئی ہے۔ مہینوں سے لاک ڈائون کے مصائب کے شکاراسلامیان کشمیر پرمودی وائرس کے اس تازہ حملے نے انکے جان ومال اورانکی عزت وناموس کوپوری طرح خطرے میں ڈال دیااور کشمیراب پوری طرح فلسطین بن گیا ، کیونکہ اب بھارت کے کروڑوں ہندو یہاں آباد ہوجائیں گے اور کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار اقلیت میں بدل جائے گا۔بھارت کو جموں وکشمیر کا مسلم اکثریتی کردار پہلے سے ہی کھٹکتا آیا ہے اور وہ ریاست کا آبادیاتی تناسب بگاڑنے کے لئے ایک طرف مسلمانان کشمیرکوموت کے گھاٹ اتار،رہاتھااوردوسری طرف ایسے کشمیرکی مسلم شناخت ختم کرنے کے لئے کالے قوانین کے نفاذکے لیے بس موقع کی تلاش میں تھا ۔ کشمیریوں کوکوروناوائرس کی آفت کاسامناہونے کے باوجودنئے ڈومسائل کے اجراسے اس حقیقت پرمہرتصدیق ثبت ہورہی ہے کہ بھارت کوکسی بھی طرح کشمیرچاہئے چاہئے اس دوران سارے کشمیری ہی مرکیوں جائیں۔ دیکھاجائے تو کشمیر پرمودی وائرس کایہ حملہ کوروناوائرس سے بھی بڑاحملہ ہے بلکہ یہ اسلامیان کشمیرپرنیوکلیئر بم گرانے سے بھی خطرناک ثابت ہوگا۔ بدھ یکم اپریل 2020 ء کی صبح بھارتی وزرات داخلہ سے ایک اعلامیہ جاری ہوا جس کے مطابق اب کشمیر میں’’ ڈومیسائل ‘‘شہریت کا نیا قانون نافذ ہوگیااور اس کی رو سے سرکاری محکموں میں چپڑاسی، خاکروب، نچلی سطح کے کلرک، پولیس کانسٹیبل وغیرہ چوتھے درجے کے عہدوں کو کشمیری مسلمانوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے جبکہ اعلیٰ اورگزٹڈ عہدوں کے لیے پورے انڈیا سے ہندو امیدوار نوکریوں کے اہل ہوں گے۔اس طرح مودی نے کشمیرپر ایک ایسے شرمناک منصوبہ کولاگوکردیا کہ جس کے تحت 90لاکھ کشمیری مسلمانوں کی مسلم شناخت،انکی عزت وناموس باقی نہ رہ سکے گی اورنئے ڈومسائل کااجراکرکے انکے تمام جانی ومالی اورمذہبی حقوق غضب کیے گئے ۔ بھارت نے کشمیرکی ڈومسائل میں جوتبدیلی کی اس کے مطابق اب کوئی بھی بھارتی شہری جو 15سال سے مقبوضہ کشمیر میں قیام پذیر ہو یا سات سال سے مقبوضہ کشمیر میں پڑھائی کررہا ہو اور اپنی تعلیم کے دوران میٹرک اور انٹر وہیں سے پاس کیا ہو وہ کشمیرکاڈومیسائل لے سکتاہے،اسی طرح جو تارکین وطن کشمیرکے (Relief and Rehabilitation)کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہونگے وہ بھی کشمیرکا ڈومیسائل لے سکیں گے جبکہ کشمیرمیںبھارت کے سرکاری محکموں جنہیں’’فیڈرل ڈیپارٹمنٹس ‘‘کانام دیاگیاہے میں کام کرنے والے اہلکار جن میں فیڈرل گورنمنٹ، آل انڈیا سروسز افسران، سرکاری افسران و اہلکاران، بھارت کے سرکاری بینک،بھارت کی سرکاری یونیورسٹیز سمیت دیگر سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں کام کرنے والے اہلکار جو عرصہ 10سال سے مقبوضہ جموں کشمیر میں موجود ہوں وہ بھی ریاست جموںوکشمیرکا ڈومیسائل حاصل کرسکیں گے،اس کے علاوہ ایسے افراد جو مقبوضہ جموں کشمیر سے باہر کہیں ملازمت کررہے ہوں یا تعلیم حاصل کررہے ہوں مگر ان کے والدین درج بالا طریقہ کارپرپورا،اترتے ہوںیعنی دس سال سے کشمیرمیں موجودہوں وہ بھی مقبوضہ جموں کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کرسکیں گے ۔اب ان 5 لاکھ بھارتی ہندو نائیوں،موچیوں ،مستریوں ،خاکروبوں،اینٹ سازوں اورمزدوروںکی شکل میںگزشتہ کئی برسوںسے کشمیرمیں کام کررہے ہیںکوبھی کشمیرکاڈومسائل دیاجائے گا۔ 1927سے یکم اپریل 2020تک کشمیریوں کے پاس جوڈومسائل تھاوہ غیرکشمیریوں ’’بھارتی ہندئووں‘‘کو کشمیرکی شہریت حاصل کرنے ،کشمیر میں مستقل رہائش اختیار کرنے، جائیداد خریدنے، نوکریاں حاصل کرنے سے روک رہاتھا۔اس ڈومسائل کے اجرا کا اپناایک پس منظرتھاجوتقسیم ہندسے قبل سے جاری تھا اوروہ یہ کہ برٹش انڈیا میںریاست جموںو کشمیر پر جموں کے ایک ہندو ڈوگرہ خاندان کی حکومت تھی جنہیںمہاراجوں کے نام سے پکاراجاتاتھاچنانچہ ڈوگرہ راج میںکئی وجوہات کی بنیادپر جن میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ کرہ ارض پرموجود ہرلحاظ سے کشمیرکے انتہائی خوبصورت علاقے کی طرف پنجاب اور دوسری شمالی ریاستوں سے جو لوگ رخ کیاکرتے تھے توانہیںریاست جموںوکشمیر میں مستقل آباد ہونے اوریہاں کی سرکاری نوکریوں پرقبضہ جمانے سے روکنے کے لئے 1927ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کی مطلق العنان حکومت نے ریاست جموں کشمیر شہریت قانون پاس کر دیا جس کی رو سے کوئی بھی غیر کشمیری یہاں جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا اور نہ سرکاری نوکری حاصل کرسکتا ہے ۔ 1947ء میں ریاست جموں وکشمیرپرجابرانہ قبضہ اورجارحانہ تسلط ہوا تواس کے باوجودڈوگرہ شاہی کایہ قانون شہریت دفعہ 370کی ذیلی شق35Aکے تحت برقراررہالیکن بھارت کے ہندئووں کواس سے بڑی چبھن ہورہی تھی اوروہ ان دفعات کاہرصورت میں خاتمہ چاہتے تھے۔ بھارت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیںکانگریس اوربی جے پی اسے ہضم کرنے کے لئے تیارنہیں تھیں اورکانگریس درپردہ مگربی جے پی کھلم کھلا کشمیریوں کے شہری سٹیٹس کے خلاف برسرپیکار تھی۔