رمزآشنااورمحرم رازعلامہ حسن البناء شہیدنے کیاخوب فرمایاکہ ’’تمہاری حقیقی عیداس دن ہوگی جس دن تمہاری سرزمینیںآزادہونگی اوردنیامیںقرآن کی حکمرانی ہوگی ‘‘یقینااس دن نہ صرف ہماری حقیقی عید ہوگی بلکہ وہ دن امت مسلمہ کے لئے عہدآفریں بھی ہوگاکہ جب نبرآزماشیطانی طاقتوں کوعبرت انگیزشکست ملے گی اوراسلام کے نشاہ ثانیہ اورپھرسے اس کے اوج اقبال کادوردورہ ہوگا۔ دنیاکے دیگرخطوں میں پائی جانے والی اسلامی تحریکات کے بشمول ملت اسلامیہ کشمیرطویل و صبر آزما جدوجہدمیں جو قربانیاں پیش کررہی ہے ظلم و جبراوربربریت کا کوئی متوحش اورمتنفرہتھکنڈہ ایسا نہیں جو ہندوبھارت نے بے سرو سامان اور نہتے کشمیری مسلمانوں پر نہ آزمایا ہولیکن بھارت کاظلم وتعدی خستہ دل اورتفتہ جگرکشمیری مسلمانوں کے اذہان میں کشمیرکازسے ایمانی لگائوکومستحکم اورمضبوط ہی کرتاچلاگیااورآج کشمیرکابچہ بچہ ببانگ دہل یہ اعلان کرکے بھارت کے بام ودرہلارہاہے کہ ستم گر ادھر آ ہنر آزمائیں تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں وہ برملایہ اعلان کرتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیرکی کامیابی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور ہماری حقیقی اور سچی عید اس وقت ہو گی جب ریاست جموںوکشمیربھارت کے استعماری تسلط سے آزاد ہو گی اور اس سرزمین سے توحیدحقیقی کاڈنکابجے گا۔ 1990ء میں ملت اسلامیہ کشمیر کا جمود واضمحلال ٹوٹا،اسلامیان کشمیرنے اپنی منزل کاتعین کرلیاجہادکشمیرکے لئے ایک صدائے رحیل بلندہوئی ذہنوں میں دسعت ، طبیعتوں میں جولانی درآئی،ان کی فکرنے ایک تاریخ ساز جدوجہد شروع کرنے کااڑان بھری، قلب وذہن نے آزادی برائے اسلام کے لئے اپناانہماک دکھایا عظیم مقاصد کے حصول کے لئے عظیم قربانیاں پیش کرنے کے لئے ان کاسینہ فراخ اور منشرح ہوا ۔ان کی یہ دید بھارت کی آنکھ کاکانٹاثابت ہوئی توبھارت کی تجہیل کے باعث تین عشرے ہوئے کہ کشمیرمیں عیدکی خوشیاں مسلسل ماندپڑی ہیں۔ تیس برسوں سے لگاتار عیدکے موقع پربھی کشمیری مسلمانوں کاقتل وخون، مظالم، محاصرے، گرفتاریوں کے جھکڑ چل رہے ہیں، گولیوں کی تڑ تڑاہٹ، گھن گرج ہے اور بارود کی سماعت شکن تڑاخ پٹاخ آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ دونوں عیدوں پر اہل کشمیرکا نت نئے کرب و ابتلاکے ذریعے گھیرائو ہورہاہے۔عیدکے موقع پرکڑیل ،خوبصورت اورخوب سیرت کشمیری نوجوانوں کے اٹھتے جنازے قلب ناتواں پر آرے چلا رہے ہیں،بھارت تمام اخلاقی، انسانی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر کشمیرکے نہتے مسلمانوں پر گولیوں کی بارش کر رہا ہے، اپنی آوازبلندکرنے کے لئے ان پر تمام راستے مسدود کر دئے گئے ہیں ۔اس ظلم عظیم پردنیاکی خاموشی دیکھ کریہ امرمترشح ہورہاہے کہ انصاف و عدل کی اصطلاحیں بس قانون کی ضخیم کتابوں میں مدفون ہیں ، ناگفتہ بہ قہر سامانیوں کی تاویلیں ہورہی ہیں۔ یہ کوئی سہل اورمعمولی بات نہیں کہ 30سال ہوئے مظلومین کشمیرکودن کاچین نہ رات کاآرام نصیب ، انکی صبحیںا ورانکی شامیں غم میں ڈوبی ہوئی ہیں، ہجوم در ہجوم آفات وآلام ہرسوانہیں گھیرے ہوئے ہیں، جس طرف نظراٹھاکردیکھیں توجابجامقابر کی قطار، جنازوں کی تکرار، زخمیوں کی بھرمارسے کشمیرمیں انسانیت لاچار ہے، ہر گھر نوحہ خواں ہے اور مسلمانوں کی یہ بستی ویران پڑی ہے ، سرمایہ ملت یعنی نوجوان خزاں کے تند جھونکوں کی نذر ہورہے ہیں۔ ہر کلمہ خواں زخموں سے چوراوررنج و غم سے نڈھال ہے۔ ظالموں کے ظلم سے دشت و بیاباں وحشت زدہ ہیں، انسانی آبادیاںاس پیمانے پہ خون آلودہ ہیںکہ سکون غارت، اطمینان غائب، آرام عنقاہے، دل اجڑے ہوئے ہیں ۔اپنے جائزاورپیدائشی حق کامطالبہ کرنے والوں کی گردنیں زیر تلوارہیں جبکہ جرات ِاظہارصریحاََجرم اور سچ کی پکارمکمل طورپرگناہ عظیم قرارپاچکاہے۔ غرض سرزمین کشمیرپرانسانیت خون آشامیوں میں بے حال ہے اور اس قدر پامال ہے کہ زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں۔ امت مسلمہ جسد واحدکی طرح ہے تو باہمی اخوت ، دوسروں کے دکھ درد کے احساس والی روح کے ساتھ زندہ رہنا ہی انسانیت ہے، امت کا ایک حصہ لہو لہان ہو تو پوری امت اس کا درد وکرب محسوس کرے اور باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔فلسفہ عید یہ ہے کہ یہ باہمی تعلقات کو مستحکم ،اسلامی اخوت ومحبت کو مضبوط ، اور امت کے شیرازے کو متحد کیاجائے ۔ عید یہ پیغام دے رہی ہے کہ عید تنہا خوشیاں منانے کا نام نہیں بلکہ اپنے آس پاس اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو خوشیوں میں شریک کرنا بھی ایمانی تقاضا ہے۔ کتنے مسلمان اغیار کے تعذیب خانوں میں مقید ہیں،سہارے چھیننے سے بچے، بوڑھے اورخواتین سے خوشی اوران کی مسکراہٹ چھین لی گئی ہے، اوروہ یہ دن مظلومیت کے ساتھ گذارہے ہیں۔ مسلمانوں کے آزادخطوںکے لئے عید احتساب وتجدیدِ عہد کا دن ہوتاہے، امہ سے وابستہ مظلوم مسلمانوں اورامت کے ایک ایک فرد کو اپنے جسم کا حصہ سمجھنے کے عہدکی تجدیدکادن ہوتاہے،مظلوم مسلمانوں کی دادرسی اورانہیں اغیارکی غلامی سے نکال کر آزادی دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کے پختہ عزم کرنے کادن ہے،انکی غلامی اورانکے حالات بدکیسے کافورہوجائیں اس کااحساس پیداکرنے کا دن ہے ۔ بنظرغائردیکھاجائے توصاف دکھائی دے رہاہے کہ پوری امہ مسلمہ غلامی کی زندگی جی رہی ہے۔ عید آزاداں شکوہِ ملک و دین کے بجائے پوری امہ کی عیدہجوم مومنین ہے کیوں کہ غلاموں اور مجبوروں کی عید بھی کیا عید ہوتی ہے۔ آزاد قوموں کی عید تب ہوتی ہے جب وہ با وقار ہو ںاور دین سر بلند ہو۔ آج ہمارا دین کے ساتھ کیا معاملہ ہے اور ہمارے مسلم ممالک کی کیا حالت ہے؟ سب کچھ سامنے ہے ۔اس پس منظرمیں یہ کہنابرمحل ہے کہ ہماری اصل عید تو اس دن ہوگی جب مسلم ممالک کو حقیقی آزادی حاصل ہوگی، ملت اسلامیہ خود مختار ہوگی ، دین سر بلند ہوگا، اور مسلم امہ شریعت اسلامی اور دینی تعلیمات کے ساتھ جڑے ہوں گے۔