بھارت کی تفتیشی ایجنسی (NIA)نے شرمناک اقدام اٹھاتے ہوئے سری نگرکے معروف علاقے صورہ میں کشمیرکی بہادربیٹی،خواتین کشمیرکی تنظیم دختران ملت کی چیئرپرسن آسیہ اندرابی کے آبائی گھرکوضبط کرلیا۔تہاڑ جیل میں محبوس آسیہ اندرابی کے گھرپرنوٹس چسپاں کردیاگیا۔ جس پرلکھاگیاہے کہ اس گھرکو(NIA)کی تفتیش پرضبط کیاگیاہے ۔اس لئے اب یہ گھرحکومتی تحویل میں ہے ۔واضح رہے کہ بھارت کی تفتیشی ایجنسی (NIA)نے اس سے قبل شبیراحمد شاہ اورغلام محمدسوپوری کے گھروںکوبھی سربمہرکردیا ہے۔ 4جنوری 2018ء کوآسیہ اندابی کواس وقت گرفتارکرلیاگیاجب وہ کئی ماہ جیل میں گزارکررہاہوچکی تھیں۔گرفتاری کے بعدانہیں سری نگرسینٹرل جیل منتقل کیاگیاجبکہ6جولائی 2018ء جمعہ کودہلی کی تفتیشی ایجنسی (NIA)نے کشمیرکی بہادربیٹی،خواتین کشمیرکی تنظیم دختران ملت کی چیئرپرسن آسیہ اندرابی اور ان کی دو قریبی ساتھیوں ناہیدہ نسرین اور صوفی فہمیدہ کو ایک فوجی طیارے کے ذریعے سری نگرسینٹرل جیل سے نئی دہلی منتقل کردیا جہاں کی ایک خصوصی عدالت نے تینوں کو ریمانڈ پر این آئی اے کے حوالے کردیا۔کشمیریوں نے 56سالہ آسیہ اندرابی اور ان کی ساتھیوں کو دِہلی منتقل کرنے کی مذمت کی ہے اور اسے سیاسی انتقام کی بدترین مثال قراردیاہے۔جبکہ کشمیری خواتین کی تنظیم دختران ملت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین اور صوفی فہمیدہ کے گھر والوں کو انہیں سرینگر کی سینٹرل جیل سے نکال کرایک فوجی طیارے کے ذریعے دِہلی منتقل کرنے کے بارے میں با لکل بے خبر رکھا گیا۔دختران ملت نے اسے اغوا کے مترادف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تینوں کو گزشتہ دنوں جنوبی کشمیرکے ضلع اسلام آبادکی ایک عدالت نے ایک کیس کے سلسلے میں عدالتی حراست میں دیدیا تھا جس کے بعد پولیس نے انہیں سرینگر کی سینٹرل جیل منتقل کیا تھا۔ وحدت امت کے تقاضوں کے تحت الحاق پاکستان کی حامی، کشمیرکی خواتین تنظیم دختران ملت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی نے اپنی زندگی کشمیری خواتین کی اصلاح ،صنفی پندارکے ساتھ جینے اورکشمیرکی تحریک آزادی میں خواتین کے متعین کردارکے حوالے سے انکی راہنمائی کے لئے وقف کر دی ہے۔اپنے اس ہدف کوپانے کے لئے تادم تحریروہ کوہ گراں ثابت ہوئی ، قیدوبندکی صعوبتیں،روارکھے جانے والاظلم و جبر انہیں تادم تحریرخوفزدہ نہ کرسکا ۔بلاشبہ وہ نڈر، دلیراور انتھک خاتون اسلام ہیں۔ 1963 ء میںسری نگرکے پائین علاقے میں جنم لینے والی آسیہ اندرابی نے گورنمنٹ ویمن کالج امیراکدل سرینگرمیں زیرتعلیم رہتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ چنانچہ 1985ء میں انہوں نے دختران ملت کے نام سے ایک توانا اورمضبوط اصلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی جو آنے والے چند سالوں کے دوران کشمیری خواتین کی ایک متحرک اور مقبول ترین تنظیم بن گئی۔کشمیرکی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ اس تنظیم کا پہلا تنازع 1987مارچ میں ہوا جب انہوں نے عریانیت اور عورت کے استحصال کے خلاف ایک مظاہرہ کیااس مظاہرے میں انہوں نے پسنجربسوں میں خواتین کی علیحدہ نشستوں کا مطالبہ بھی کیا۔اس مظاہرے کے بعدپہلی دفعہ سری نگرمیںدختران ملت کے دفاتر سیل کردیئے گئے اورتنظیم کے تمام دستاویزات حکومتی تحویل میں لے لیے گئے۔1990ء میںبھارتی قبضے کے خلاف جب جہادکشمیرکاآغاز ہوا تودختران ملت ،کشمیری خواتین پرمشتمل وہ پہلی تنظیم تھی جس نے ڈنکے کی چوٹ پراورنہایت مبرہن اندازمیں اس کی حمایت کا اعلان کیاجبکہ ان کے شوہرعاشق حسین فکتوکشمیرکی بانی جہادی تنظیم جمعیت المجاہدین کے اولین اراکین میں سے ایک تھے۔اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے وہ گرفتارہوئے انہیں عمرقیدکی سزاسنائی گئی اوروہ گزشتہ 26برسوں سے اسیرہیں۔ کشمیرپربھارت کے جابرانہ قبضے کے خلاف جہادکشمیرکی حمایت کرنے اوراس کا ساتھ دینے کے الزام کے سلسلے میں آسیہ اندرابی کی تنظیم کو1990میں کالعدم قرار دیاگیا۔اگرچہ بنیادی طورپر دختران ملت ایک اصلاحی تنظیم کے طور پرمعرض وجودمیں آئی تھی تاہم بھارتی قبضے کے خلاف کشمیرمیںجہادکشمیرکی شروع ہونے کے بعداس تنظیم نے اپنے فیلڈیااپنے دائرہ کارمیں واضح طورپرتوسیع دی،اورکشمیرکی تحریک آزادی کی اب یہ باضابطہ ایک اکائی کے طورپرکام کررہی ہے ۔اس کے اسی کرداروعمل کے باعث گزشتہ اٹھائیس برسوں سے اب وہلی اورریاست کی کٹھ پتلی سرکاردختران ملت کو ایک سخت گیر نظریاتی تنظیم کے طورپرسمجھتے ہیں۔دختران ملت کی مہمات کی پاداش میںآسیہ اندرابی کو کئی دفعہ گرفتارکیاگیااورآج تک انہیں کئی مرتبہ جیل جاناپڑا۔1993 میں آسیہ اندرابی کو ان کے شیر خوار بچے سمیت 13ماہ تک سری نگرسنٹرل جیل میں قید رکھا گیا۔ اس کے بعد ان کی بار بار گرفتاری کا سلسلہ جاری رہا ہے۔گویاان کاجیل آنا جانا بھی لگا رہا ہے اورانہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوںمیں اذیتیں برداشت کرتے گزرا ہے اور زندگی کا کافی حصہ وہ بھارتی جیلوں میں گزار چکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔جدوجہد کے اس طویل سفر کے دوران آسیہ اندرابی کو اپنے شوہرڈاکٹرعاشق حسین فکتوکے عمرقیدکی سزاکی پاداش میں انکے جیل جانے پراجیرن زندگی جینے پر مجبور ہونا پڑا لیکن اس کے باوجود مایوسی ان پر غالب نہیں آسکی۔ آسیہ اندرابی اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ کشمیریوں کواستصواب کاحق ملاتو کشمیر پاکستان کا حصہ بن کررہے گا۔تحریک آزادی کشمیر سے ان کی کمٹمنٹ بے لوث ہے وہ اسلامی اتحاد پر یقین رکھتی ہیں۔ان کایہ دوٹوک موقف ہے کہ کشمیرپربھارت کے قبضہ کے خاتمہ کیلئے نوجوانوں نے اپنی اٹھتی جوانیوں کوایک عظیم مقصدکے لئے قربان کیا ہے اور اب بھی قربانیاں دے رہے ہیں،اس لئے کشمیریوں پر یہ فرض ہے کہ ان قربانیوں کے امین بن کر شہدا کے چھوڑے ہوئے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں،ان کاموقف ہے کہ وہ بھارت اور اس کے گماشتوں کے خاکوں میں ہرگز رنگ بھرنے نہیں دیں گی۔وہ کشمیرکے لخت ہائے جگر کے خون کی قیمت کشمیر سے بھارت کے جابرانہ قبضہ کے خاتمہ سے کم کچھ بھی نہیں سمجھتی ہیں اور کشمیر کے پاکستان کے ساتھ انضمام سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہیں ۔خیال رہے کہ دختران ملت اورآسیہ اندرابی سمیت کشمیرکی تمام نظریاتی جماعتیں اورانکی لیڈرشپ کسی مشرف ،کسی نوازشریف ،کسی زرداری یاکسی عمران خان کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستان کے بنیادی نظریئے اوراس عظیم نظریئے کی خاطردی گئی عظیم قربانیوں اورکلمہ طیبہ کی بنیادپرایمان کی حد تک پاکستان کے ساتھ نظریاتی لگائورکھتی ہیںاس حوالے سے وہ بھارتی فوج کی دہشت گردی اورظلم وبربریت سے خوفزدہ نہیں ۔ اس پس منظرمیں آسیہ اندرابی کواس بات پرفخرحاصل ہے کہ انہیں بنیاد پرست قرار دیاجاتاہے کیونکہ اسلام کے بنیادی اصولوں پروہ کامل ایمان رکھتی ہیں۔کشمیرکے حالات کے مدوجزرکے ساتھ ساتھ کشمیرکی کئی دینی اورسیاسی تنظیموں نے مختلف کروٹیں بدلیںاورانکے نظریات کھل کرسامنے آئے لیکن اس سب کے باوجودآسیہ اندرابی نے اپنے نظریات قطعاََنہیںبدلے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے ان کی شناخت دوٹوک نظریہ رکھنے والی دختران ملت ہی رہی ۔