پچھلے کئی سالوں سے یہ تجارت دونوں حکومتوں کی سرد مہری کا شکار تھی۔ یہ شاید دنیا بھر میں واحد تجارت تھی جہاں کرنسی کے بدلے اور بینکوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے زمانہ قدیم کا بارٹر سسٹم یعنی چیز کے بدلے چیز لاگو تھی۔ سیبوں کی پیٹی کے عوض پشاوری چپلیں اور پستوں کے بدلے کشمیری شالیں۔ اسی طرح کے بارٹر سسٹم پر یہ تجارت سانس لے رہی تھی۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اچانک تجارت معطل کرنے سے تاجروں کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان تو ہوا ہی ہے۔ پونچھ اور اوڑی کے سینکڑوں نوجوانوں سے روزگارچھن گیاہے۔باہمی اعتماد سازی کے تحت 2008ء میں یہ تجارت شروع ہونے کے بعد اب تک69ارب روپے کی تجارت ہوئی ہے۔اس تجارت میں21اشیاء فہرست میں شامل ہیں،جن میں کیلا،کڑائی کی اشیاء ،لال مرچ، جڑی بوٹیاں، آم، پستہ، املی، زیرہ اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔اوڑی کے سلام آباد ۔چکوٹی پوائنٹ سے ابھی تک44ارب اور پونچھ۔ راولاکوٹ سے25ارب روپے کی تجارت ہوئی ہے۔ابتدائی دور میں اس تجارت سے646 تاجر جڑے ہوئے تھے،تاہم بعد میں انکی تعداد کم ہوئی اور فی الوقت280تاجر سرکار کی طرف سے تسلیم شدہ ہیں۔2008ء میں جب یہ تجارت شروع ہوئی تھی تو ہفتے میں دو دن تجارتی ایام مقرر کئے گئے تھے تاہم2011ء کے بعد ایام کار میں اضافہ ہوا،اور4دن کرائے گئے۔سلام آبادٹریڈیونین کے چیئرمین ہلال ترکی نے بتایاکہ تجارتی سرگرمیوں کومعطل کئے جانے سے پہلے متعلقہ تاجران کویہ موقعہ فراہم کیاجاناچاہئے تھاکہ وہ نقصان سے بچ سکیں۔ہلال ترکی نے بتایاکہ ہم نے اس تجارت کیلئے کروڑوں کاسامان یامال خریدا ہواہے جو گوداموں میں پڑا ہواہے جبکہ گزشتہ لگ بھگ آٹھ ہفتوں سے اوڑی کے راستے تجارت معطل رہنے کے نتیجے میں درجنوں گاڑیوں میں بھراسامان بالخصوص میوہ جات سڑرہے ہیں۔پونچھ راولاکوٹ ٹریڈ ایسو سی ایشن صدر عبدالرزاق خاکی کے مطابق اعلان سے ایک دن قبل انہوں نے33گاڑیوں میں مال بھرا تھا،تاہم انہیں اس پار جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا ہے اس تجارت سے ہزاروں لوگوں کے گھروں کا نظام چل رہا تھاجو ٹھپ ہوگیاہے۔جن وجوہات کی حکومت کی طرف سے نشاندہی کی گئی ہے ، ان کے تدارک کیلئے تاجروں اور ریاستی حکومت کی طرف سے ہی بارہا سکینرز کی تنصیب اور دیگر اقدامات کی اپیل کی جاتی رہی ہے۔ لیکن خود بھارتی حکومت نے ہی اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ تجارت کی معطلی سے بہتر ان خدشات کودور کرنے کیلئے اقدامات کی ضرورت تھی جو وزارت داخلہ کی جانب سے ظاہر کئے گئے ہیں۔ستم ظریفی تو یہ تھی، پاکستان کی طرف بھی چند افراد اس تجار ت اور راہداری کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔ لگتا ہے کہ جس طرح کشمیری پنڈتوں کے ایک مفاد پرست گروپ نے نئی دہلی کے پاور سٹرکچرمیں غلط اور ناکافی معلومات کی ایک طرح سے بمباری کروا کے، پچھلے 60 سالوں سے بھارتی حکام کو ایک ناکام، لاحاصل اور غلط کشمیر پالیسی اپنانے پر مجبور کر رکھا ہے‘ اسی طرح کا رول اب ایک گروپ اسلام آباد میں بھی ادا کر رہا ہے۔ وہ پاکستانی حکام کو زمینی حقائق کے بجائے عجیب و غریب مشوروں سے نواز رہا ہے۔ کہاں کشمیری عوام کا یہ جذبہ کہ ریاست میں کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کا زیادہ سے زیادہ عمل دخل بڑھے، کہاں اسلام آباد اور مظفر آباد میں موجود کچھ قائدین آر پار تجارت اور راہداری کے سہارے زندہ موہوم سی امید کا چراغ بھی گل کرنے پر تلے ہوئے تھے۔2008 ء میں امرناتھ یاترا ایجی ٹیشن اور جموں میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی کے رد عمل میں کشمیری عوام اور تاجروں نے پارمپورہ اور سوپور کی منڈی سے ٹرکوں میں سوار ہو کر اوڑی کی طرف مارچ کیا تھا۔ یہ راہداری حریت کے سینئر قائد شیخ عبدالعزیز اور 64 دیگر افراد کے لہو اور قربانیوں کی دین ہے۔ ضرورت ہے کہ چکوٹھی کی طرف شیخ صاحب کی یاد میں کوئی پوائنٹ موسوم کیا جائے یا کوئی کتبہ لگایا جائے،‘ جس میں شیخ صاحب اور اس لائن کو کھولنے کے مطالبے کو لے کر شہید ہونے والے افراد کے نام کندہ کروائے جاہیں، تاکہ اگلی نسل تاریخ سے نابلد نہ رہے۔اس تجارت کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت تھی۔ امید کی جانی چاہئے کہ اعتمادسازی کے طور پر شروع کی گئی تجارت کی یہ معطلی عارضی ثابت ہوگی اور بھارتی حکومت اس پر نہ صرف نظرثانی کرے گی بلکہ اس کی بحالی کیلئے بھی فوری اقدامات کئے جائیں گے۔