بھارتی حکمران سر زمین کشمیر پر کھڑے ہو کر اتنی بار’’ اٹوٹ انگ‘‘ کا دعویٰ کرچکے ہیں کہ اب یہ محض ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔بھارت نے کئی بارمذہبی بنیاد پر ملک کی مزید تقسیم کو خارج از امکان قرار دیا اور سرحدوں کی تبدیلی سے صاف انکار کر دیا ۔اس سے قبل پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی حکومت کی تمام تر خوش فہمیوں کا ازالہ ہوچکاہے ‘جنرل صاحب سرنگ کے اس پار امید کی روشنی دیکھ رہے تھے ۔ جنرل پرویز مشرف نے کہاتھا…کشمیر پر یک طرفہ ٹریفک نہیں چلے گی ‘اگر بھارتی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ بھارت کے آئین یااٹوٹ انگ کے ساتھ اور سرحدوں میں ردوبدل کے بغیر ہی مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے‘ تو پاکستان بھی اپنے اصولی موقف پر قائم رہے گا ۔ہم بھی ۱۹۴۸ء کی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے جن میں کہا گیا ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے ۔انہوں نے کہا ‘میں نے نیویارک میں کہا تھا ‘مجھے سرنگ کی دوسری طرف روشنی نظر آ رہی ہے‘ مگر اب یہ روشنی بجھتی نظر آ تی ہے ۔یہ ممکن نہیں کہ ہم بولتے جائیں اور وہ سنتے چلے جائیں ۔‘‘ اس کے بعدجنرل کی پالیسیوں نے مسلسل کلا بازیاںکھائیں وہ امریکیوں کی خوشنودی کے لیے پسپائی اختیار کرتے چلے گئے یہاں تک کہ مسئلے کے اصل فریق منہ دیکھتے رہ گئے۔کشمیریوںکے احتجاج پر یہ ’’تسلی ‘‘ دی جاتی رہی کہ ’ کوئی دن کی بات ہے،جب ہم چاہیں گے یہ باڑ بھک سے ارادی جائے گی۔اسی آس پر مزید دو عشرے بیت گئے۔۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ یا موجودہ وزیر اعظم مودی نے اپنے لہجوں میں نرمی بھی صرف نظریہ ضرورت کے تحت پیدا کی تھی ۔مذاکرات کے ایجنڈے میں کشمیر کو محض ایک جزو کے طورپر شامل کیا جاتارہا۔ سیاچین ‘ سر کریک‘ بگلیار ڈیم اور دوسرے معاملات کی طرح کشمیر کو بھی ایک ایشو کے طورپر لیاگیا۔ پاکستان کی طرف سے اسے بنیادی مسئلہ (Core Issue) کہنے کا برا منایا گیا۔ مذاکرات کے دوران پاکستان نے کشمیر کی بات چھیڑی تو ہر بار دہشت گردی ‘ آزاد کشمیر اور کنٹرول لائن پر بحث و مباحثہ چھیڑ کر اصل معاملہ ٹال دیا گیا۔اصل فوکس ’’دوستی ‘‘پر رہا۔ اعتماد بحال کرنے ‘تجارتی تعلقات کی بحالی اور مواصلاتی رشتے استوار کرنے پر زور دیا گیا ۔ایک بار من موہن نے یہ بھی کہا تھا کہ جب دیوار برلن گر سکتی ہے تو کشمیر کے حالات کیوں تبدیل نہیں ہو سکتے ۔اس کے جواب میں تب کے بھارتی وزیر خارجہ مسٹر نٹور سنگھ نے پریس کانفرنس میں ایک بار پھر ’’ اٹوٹ انگ ‘‘ والا موقف دہرایاتھا۔ انہوں نے اپنا تحریری بیان پڑھ کر سنایا جس میں واضح الفاظ میں کہا گیاتھا کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اندرونی خود مختاری کے آپشن کی آخری حد تک جا سکتے ہیں ‘لیکن پاکستان یہ توقع ہر گز نہ رکھے کہ کشمیر کے ایک انچ علاقے سے بھی ہندوستان کی حاکمیت ختم کی جا سکتی ہے ۔کشمیر کی آزادی پاکستان کے لیے اختیاری آپشن نہیں ‘ بلکہ اس کے نظریے کا بنیادی تقاضا ہے ۔ کشمیر سے دست بردار ہونا پاکستان کے نظریے کی نفی ہے اور اکھنڈ بھارت کا تصور پاکستان کی تحلیل کا منصوبہ ہے۔ بھارت کے قول و فعل کا تضاد پون صدی سے عیاں ہے ۔ کشمیر میں بھارتی فو ج کی ریاستی دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ہر روز درجن بھر کشمیری شہید یا زخمی کیے جاتے ہیں ‘ہزاروں بے گناہ جیل خانوں میں پڑے ہیں ‘دس ہزار لاپتہ ہیں۔سیاسی جماعتوں پر پابندی ہے۔ اس قتل و غارت گری کا کیا مطلب ہو سکتاہے۔ ایک طرفقوانین میں تبدیلی کے ذریعے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی جا رہی ہے اور دوسری جانب کشمیر کی معصوم اور عفت مآب خواتین کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایک جانب آٹھ لاکھ بھارتی فوجیں نہتے کشمیریوں پر دن رات وحشیانہ مظالم ڈھا رہی ہیں اور دوسری جانب کشمیری عوام اور عالمی رائے عامہ کو فریب دیا جا رہا ہے۔جموں کشمیر ایک بڑی جیل بن چکا ہے جہاں کسی بھی بیرونی وفد ،میڈیا،سفارت کاروںاور انسانی حقوق کے اداروںکا داخلہ بند ہے۔ غزہ کے حالیہ واقعے نے ثابت کیا ہے کہ عالمی سامراج کسی طور بھی مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے گا۔بھارت کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوگیا کہ انہیں موم کی ناک کی طرح ہر طرف موڑا جا سکتا ہے ۔ ہندوستان کی پہلی ترجیح کشمیرکی تحریک مزاحمت کوختم کرنا تھا۔ یہ اس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا ‘ اس لیے کہ کشمیریوں نے عملاً آٹھ لاکھ بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے اور اس کے اعلیٰ کمانڈر یہ تسلیم کرنے لگے تھے کہ کشمیریوں کی عسکری جدوجہد کے مقابلے میں ان کی فوج عاجز و لاچار ہے ۔وہ بار بار سیاسی حل نکالنے پر اصرار کر رہے تھے ‘ لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی کمزوری کی بنا پر کشمیر کی تحریک مزاحمت کو ختم کرنے میں بھارت کی چالوں پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف اور اس کے بعد باجوہ کی پالیسیوں او نالائق ٹیم نے کشمیر کے حل کے بارے رہی سہی امیدیں توڑ دیں۔وہ لوگ جو موہوم امید کی خاطر برسوں کے جائز اور قانونی موقف سے دست بردار ہو جائیں ‘ ان کی بصیرت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔اس لیے یہ قوم کے اہل ضمیر اور افواج پاکستان کا مشترکہ اور مقدس فرض ہے کہ وہ تحریک آزادی کو ختم ہونے سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔اگر وہ صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو کشمیر پالیسی میں یوٹرن کو ختم کرنا ہوگا ۔ اگر ہم کشمیر کی تحریک آزادی کو اخلاقی ‘ سیاسی اور سفارتی امداد دینے سے عاجز بھی آ چکے ہیں ‘تو بھی ہمیں کم از کم ان کے خلاف اپنی قوت اورصلاحیت کا استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے کشمیری صدیوں سے آزادی کے منتظر ہیں ‘ وہ اس کے لیے مزید انتظا ر کر سکتے ہیں ‘ وہ اپنی تحریک جاری رکھنے کے لیے پرعزم بھی ہیں ۔ پاکستان نے ساتھ نہ بھی دیا تو بھی تحریک آزادی جاری و ساری رہے گی اور منزل پر پہنچ کر ہی دم ف کشمیراور کشمیریوں کا نقصان نہیںہوگا ‘بلکہ یہ پاکستان کی حمیت و غیرت اوراس کی معیشت کے لیے بھی ناقابل تلافی نقصان ہوگا ۔لے گی ۔لیکن ہمیں غیر ملکی دبائو کے سامنے سر نگوں ہو کر کشمیر کی تحریک آزادی کو ایسا نقصان نہیں پہنچنے دینا چاہیے جس کی تلافی نہ ہوسکے۔ ٭٭٭٭٭