حکومت نے حج پر سبسڈی ختم کردی، اچھا کیا۔ بہت سے لوگوں اور علما اور سیاستدانوں نے اس کی مذمت کی، برا کہا۔ دیکھئے جناب، سرکار میں بقول علما اور دانشور بھی فتوے سامنے لے آئے کہ سرکاری خرچے سے حج حرام ہے۔ اسے آپ یادداشت کی واپسی بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمران سرکار کا فیض ہے کہ ان مقبول دربار سرکار علما دانشوروں کی یادداشت واپس آ گئی۔ اتنے برسوں سے یہ حرام کام جاری تھا، یہ حضرات مسئلہ بھولے ہی رہے، ادھر سرکار نے اس پر پابندی لگائی، ادھر ان کی یادداشت عود کر آئی اب دو تین ان سے چینلز پر اور تقریروں تحریروں میں گمشدہ فتاویٰ جاری کئے جا رہے ہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ مولانا نورالحق قادری کہ وزیر مذہبیات ہیں، بھی تنقید کی زد میں آ گئے۔ ایک صاحب کہنے لگے ہم تو انہیں رب رب کرنے والا بزرگ سمجھتے تھے لیکن یہ بھی گل دربار نکلے، عرض کیا، وہ رب رب کرنے والے بزرگ ہی ہیں، لیکن ساتھ سمجھدار بھی ہیں۔ جانتے ہیں کہ رب نیڑے یا عمران نیڑے۔ ٭٭٭٭٭ اعتراضات جو بھی کئے جا رہے ہیں، بے محل اور بے وزن ہیں۔ مثلاً کچھ اصحاب یہ فرما رہے ہیں کہ گزشتہ دنوں منی بجٹ میں حکومت نے کھاد، ٹیکسٹائل اور سی این جی سکٹر میں اپنے ہمدردوں کو 200 ارب روپے کے قرضوں اور ٹیکسوں میں جو چھوٹ دی ہے، کیا وہ سبسڈی نہیں ہے؟ محض ایک ’’عزیزم‘‘ کا کہ اینگرو کے مالک ہیں، 16 ارب روپے کا سرچارج معاف کیا گیا۔ کتنی زیادتی کررہے ہیں یہ احباب، یہ سبسڈی کہاں ہے یہ تو ٹیکس چھوٹ ہے جو ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر دی گئی ہے اور میرٹ یہ ہے کہ خان صاحب کے اپوزیشن کے زمانے میں انہوں نے اگرچہ سخنے درمے تو نہیں لیکن دامے درمے کے باب میں ’’تبدیلی‘‘ کے لیے گراں قدر ایثار و تعاون کیا تھا۔ یہ اس تعاون کا ’’صلہ رحمی‘‘ ہے۔ اسلام میں جس صلہ رحمی کی تاکید آئی ہے، کیا پتہ مولانا قادری جیسے مجتہدین نے اس کی یہی تشریح کی ہو۔ بہرحال، ہر طرح سے وہ میرٹ پر نوازے گئے۔ حاجیوں کے پاس کیا میرٹ ہے؟ ع پیش کر حاجی اگر میرٹ کوئی ’’کھیسے‘‘ میں ہے ٭٭٭٭٭ ویسے کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ حج کے ’’ہدیے‘‘ میں جتنا اضافہ کیا گیا ہے، سبسڈی اتنی نہیں تھی۔ سبسڈی ختم کرنے کی آڑ میں حکومت نے اپنا ’’منافع‘‘ بنانے کی سبیل نکالی ہے۔ بدگمانی ہی ہوئی، ورنہ ریاست مدینہ والی صادق و امین حکومت ایسی ٹھگی کرنے سے تو رہی۔ اور کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حاجیوں سے ساری رقم پانچ ماہ پہلے ہی لے کر بینکوں میں ڈال دی جاتی ہے اور اس سے ملنے والا بھاری منافع ہی حاجیوں پر لگا کراسے سبسڈی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ یہ بھی بدگمانی والی بات ہی لگتی ہے۔ بے شک سابق نثار سے پوچھ لو۔ ٭٭٭٭٭ حکمران جماعت کے رہنما شفقت محمود ایک رات پہلے ٹی وی پر بتا رہے تھے کہ ریاست مدینہ کے آنے کے بعد سے مہنگائی میں صرف اعشاریہ صفر 4 فیصد (0.04) اضافہ ہوا ہے۔ موصوف بظاہر (وبباطن) ہوش و حواس میں لگ رہے تھے اس لیے بیان کو سچ ماننے میں عذر نہیں ہونا چاہیے۔ اعشاریہ صفر چار فیصد کا مطلب ہے سو روپے پر چار پیسے کی مہنگائی، ہزار روپے پر چالیس پیسے اور دس ہزار پر چار روپے کی مہنگائی ہے۔ یعنی جو آدمی مہینے میں پچاس ہزار خرچ کرتا ہے، اسے صرف بیس روپے اضافی خرچ کرنا ہوں گے۔ کم از کم شفقت محمود کا حساب تو یہی بنتا ہے۔ لیجئے صاحب، سرکاری محکمہ شماریات کی رپورٹ بھی شفقت صاحب کے اس انکشاف کے بعد جاری ہو گئی ہے۔ اس کے مطابق حالیہ عرصہ یعنی ریاست مدینہ کے بعد سے صرف گیس کی قیمت میں 85 فیصد اضافہ ہوا۔ سلنڈر والی گیس اور دوسری گیس بھی 28 فیصد مہنگی ہوئی۔ بسوں کے کرایہ میں پچاس فیصد، چائے کی پتی میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ کھاد کی بوری ایک ہزار روپے تک مہنگی ہوئی۔ جملہ طور پر عوام کے حساب سے، پچاس فیصد مہنگائی بڑھی ہے۔ ادویات کی قیمت میں 19 فیصد اضافہ کا اعلان ہوا۔ عملاً سو فیصد اضافہ ہوگیا جو پچاس ہزار خرچ کرتا تھا، اسے 75 ہزار خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ انصافی حساب سے یہ پچیس ہزار اضافی برابر ہوئے 20 روپے کے۔ کیا خیال ہے؟ ادھر وفاقی وزیر تیل غلام سرور خان نے جن پر بعض بے بنیاد حلقے کسی ڈیل میں اربوں کا ثواب کمانے کا الزام لگاتے ہیں، فرمایا ہے کہ گیزر استعمال کرنا ’’عیاشی‘‘ ہے اور گیزر رکھنے والوں کو ’’جرمانہ‘‘ دینا ہوگا۔ ابھی تو اطلاعات ہے، اگلے بجٹ تک بجلی کا پنکھا ہی نہیں، بلب بھی ’’لگژری‘‘ آئٹم قرار پا سکتا ہے۔ تسلی رکھئے۔ ٭٭٭٭٭ پی ٹی آئی کے کچھ رہنما ٹی وی چینلز پر یہ فریاد کرتے پائے گئے ہیں کہ اپوزیشن ’’وزیراعظم‘‘ کو عزت نہیں دے رہی۔ سنا ہے خان صاحب کو بھی حیرت ہے کہ ان کا ’’رعب داب‘‘ قائم نہیں ہورہا۔ بزرگو، آپ اگر الیکشن جیت کر آئے ہوتے تو رعب داب خود ہی قائم ہو جاتا۔ لیکن آپ تو سلیکشن جیت کر آئے۔ اب اس خود کردہ کا علاج بھی خود ہی تلاش کرو۔ ادھر بلاول نے ایک عدد مزید دھواں دھار پریس کانفرنس فرما دی ہے اور وزیراعظم کو سلیکٹڈ کے ساتھ ساتھ کٹھ پتلی بھی کہہ ڈالا ہے۔ حیرت اس امر پر ہے کہ اس بار نعیم الحق حرکت میں نہیں آئے۔ ٭٭٭٭٭ نعیم الحق فرماتے ہیں، سانحہ ساہیوال کے ذمہ دار سزائوں سے نہیں بچ سکتے۔ ذمہ داروں سے کون مراد ہیں؟ شاید لواحقین۔ پی ٹی آئی کے ایک فیوڈل رہنما کا بیان آیا ہے کہ شرپسند عناصر ان ’’لواحقین‘‘ کو گمراہ کر رہے ہیں۔ قاتلوں کو بچانے کے لیے تو خیر سے انصافی کوششیں کامیاب رہیں، اب الواحقین کو انجام تک پہنچانا باقی ہے اور کچھ نہ سہی ’’گمراہ‘‘ ہونے کا مقدمہ تو بن ہی سکتا ہے۔ ریاست مدینہ میں گمراہی؟ توبہ توبہ۔