پی ٹی آئی کے سربراہ جناب عمران خان جلد وزیر اعظم پاکستان کا منصب سنبھالیں گے۔ ان کے دور کا پاکستان کیسا ہوگا اس حوالے سے کچھ باتوں کا تو یقین ہے جبکہ کچھ کے حوالے سے سوالات کا سامنا ہے۔ ان کے ابتدائی اقدامات ہی واضح کر دیں گے کہ یہ ملک ’’نیا پاکستان‘‘ بننے جا رہا ہے یا یہ بطور ’’پرانا پاکستان‘‘ ہی چلتا رہے گا۔ پرانے پاکستان میں تو بائیسویں گریڈ کا سرکاری افسر وزیر اعظم کو سلیوٹ کرتا تو اس سلیوٹ کے مناظر ٹی وی چینلز کے ذریعے قوم کو دکھانے کی اجازت نہ ہوتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ بیٹھتا بھی وزیر اعظم کے برابر اور اپنی باڈی لینگویج سے متواتر قوم کو کچھ باور کرانے کی بھی کوشش کرتا۔ کیا پاکستان کے اونچے ایوانوں کے مناظر اب بھی وہی پرانے ہوں گے یا تبدیل ہوجائیں گے ؟ جناب عمران خان نے فرمایا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس جیسے بڑے محل میں نہیں رہیں گے۔ یہ بہت اچھی بات ہے مگر صرف وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز ہی کیوں ؟ کیا کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہاؤس تک بھی اس پالیسی کو لے جایا جائے گا یا نہیں ؟ اگر صرف وزیر اعظم ہاؤس کو ہی خالی کرنا ہے تو پھر یہ محض نمائشی اقدام ہوگا۔ معاشی و سماجی فائدہ اس اقدام کا تب ہی ہوگا جب اسے بلاتخصیص پورے ملک تک وسعت دی جائے۔ جس سانس میں انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس استعمال نہ کرنے کا اعلان فرمایا ہے اسی سانس میں پروٹوکول ختم کرنے کا بھی وعدہ فرمایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پروٹوکول بھی صرف اپنا ختم کریں گے یا سرکاری افسران کا بھی ؟ کیا صدر، وزیر اعظم، تمام وزرائے اعلیٰ، تمام گورنرز، تمام وفاوقی و صوبائی وزراء اور تمام ملٹری وسویلین افسران اب ایئرپورٹس پر عام آدمی والے دروازے سے ہی داخل ہوا کریں گے ؟ کیا طیاروں پر سرکاری حکام کے لئے ’’بزنس کلاس‘‘ ممنوع کردی جائے گی ؟ یہ سوالات پوچھنے کا مقصد یہ باور کرانا ہرگز نہیں کہ ایسا نہیں ہوسکتا یا نہیں ہوگا بلکہ ان شاندار مناظر کے لئے اپنی بے قراری کا اظہار ہی کل مقصود ہے۔ عجیب ہی عالم ہے بے قراری کا ، یقین سا ہوچلا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کا آغاز چمن بارڈر سے کیا جائے گا اور اسے ایران سے ہونے والی سمگلنگ کے سد باب تک پھیلادیا جائے گا۔ اب اس ایرانی پٹرول کا ایک قطرہ بھی پاکستان نہ آسکے گا جس میں نہ جانے ’’کس کس‘‘ـ کا حصہ ہوتا ہے اور چمن بارڈر پر یومیہ کروڑوں کا وہ لین دین بھی بند ہوجائے گا جس نے بلوچستان کو سمگلروں کی جنت اور غدار بھی بنا رکھا ہے۔ عنقریب ملک ریاض کو گرفتار کرکے اس سے پوچھا جائے گا ، بتایئے ملک صاحب ! ابتک کتنی فائلوں کو پہیے لگائے ؟ آپ کی فائلیں فور وھیلر ہیں یا گاڑیوں کی طرح فائلیں بھی بائیس وھیلرز ہوتی ہیں ؟ آج کل ایک وھیل کی قیمت کیا ہے ؟ اور ان دنوں آپ کی یہ فور وھیلرز اور بائیس وھیلرز فائلیں کس کس سرکاری دفتر میں پارک ہیں ؟ صرف یہی نہیں بلکہ ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں نیب کے حوالے کرکے کہا جائے گا ’’اپنی آمدنی کا منی ٹریل دیجئے‘‘ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ منی ٹریل نہ دیں سکیں گے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ کی ضبط شدہ دولت سے بھاشا ڈیم بنا لیا جائے گا جبکہ کچھ کے سرمائے سے پاکستان کا سارا قرضہ ادا کردیا جائے۔ کرپشن کے بعد جو تیسرا معاملہ دیکھنے کو مجھ ناچیز کی بے قراری بے قابو ہوئی جاتی ہے وہ یہ کہ خان صاحب نے فرمایا ہے ’’قانون سب کے لئے ایک ہوگا‘‘ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس حسرت میں عمر تمام ہونے کو آگئی مگر وہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوا جب قانون سب کے لئے ایک ہی ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ خان صاحب مفرور حسن اور حسین نواز کو ہی نہیں بلکہ الطاف حسین، حسین حقانی اور جنرل مشرف کو بھی جلد بیرون ملک سے لاکر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرکے انصاف کا بول بالا کردیں گے۔ آپ میری خوش گمانی کی معراج دیکھئے کہ مجھے لگتا ہے کچھ سازشی لوگ انہیں مشورہ دیں گے کہ اس کارخیر کا آغاز ہی بیرون ملک سے کیا جائے، لیکن خان صاحب اپنی ذہانت سے بھانپ جائیں گے کہ یہ مشیر مجھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے چکر میں ہیں۔ چنانچہ خان صاحب بیرون ملک کے بجائے اندرون ملک سے آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے راؤ انوار کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے اور اس کے تمام پولیس مقابلوں کی تحقیقات بھی شروع کرا دیں گے۔ یقین کامل رکھتا ہوں کہ چھ ماہ کے اندر اندر رااؤ انوار کو عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا۔ خان صاحب کے حوالے سے بس ایک دو معاملوں پر ہی تشویش ہے۔ ایک کشمیر کا معاملہ اور دوسرا بھارت سے تعلقات کی نوعیت۔ خان صاحب نے فرمایا ہے کہ ’’بھارت میں سب سے زیادہ دوستیاں میری ہیں۔ بھارت ایک قدم چل کر امن کی طرف آئے، میں دو قدم چل کر جاؤں گا‘‘ اور یہی تشویشناک بات ہے۔ بھارت کے ایک قدم چل کر آنے کے جواب میں پاکستان کے دو قدم چلنے کے جرم میں ہی تو نواز شریف کو ’’مودی کا یار‘‘ کہا جاتا تھا۔ حالانکہ نواز شریف کی بھارت میں کسی سے ذاتی دوستیاں بھی نہ تھیں۔ وہ سرکاری دوروں کے سوا کبھی بھارت نہیں گیا۔ اب تو نواز شریف کی حکومت بھی نہیں ہے جو مودی کا یار تھا اور اللہ کے فضل و کرم سے کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی مولانا فضل الرحمن کے پاس نہ ہوگی تو بھارت سے کشمیر آزاد کرانے میں کوئی رکاوٹ ہی باقی نہ رہی۔ ایسے میں بھارت سے دوستی کی باتیں کیوں کی جارہی ہیں ؟ یہ تو غداروں کا راستہ ہے۔ خان صاحب للہ اس ضمن میں اپنی سوچ پر نظر ثانی فرمائیں اور یقین دلائیں کہ آپ کے دور حکومت میں ہم بھارت سے بزور طاقت کشمیر حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ بھارت کے حوالے سے ہی ایک معاملہ ایسا بھی ہے کہ آنکھیں بند کرکے کہا جا سکتا ہے کہ خان صاحب اس معاملے میں قومی توقعات پر پورا اتریں گے۔ یہ معاملہ ہے دہشت گرد کلبھوشن جادیو کی پھانسی کا۔ یہ تو طے ہے کہ کلبھوشن کی خیر نہیں ! اگلے چند روز یا زیادہ سے زیادہ چند ہفتوں میں کلبھوشن جادیو کو پھانسی دیدی جائے گی اور یہ نئے پاکستان کی پہلی پھانسی ہوگی ۔