سانحہ ساہیوال،پنجاب پولیس، سی ٹی ڈی کی تربیت و کارگزاری اور حساس اداروں کی معلومات کے حوالے سے بعض سوالات تا حال جواب طلب ہیں مگر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور وزیر اعظم عمران خان نے تین دن میں یہ قضیہ نمٹانے کی جو سعی کی وہ قابل داد ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کہیں زیادہ المناک اور ریاستی دہشت گردی کی واضح مثال تھا، خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف تجربہ کار حکمران اور 2008ء سے پنجاب کے سیاہ و سفید کے مالک تھے مگر مقتولوں کے ورثا کی طرف سے ایف آئی آر کا اندراج ایک سال بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر ہوا، جے آئی ٹی ایسی بنی جس پر شہدا کے لواحقین کو اعتماد تھا نہ قوم کو اور نہ اس کی رپورٹ منظر عام پر آئی۔ عوامی دبائو پر جوڈیشل کمیشن بنا مگر رپورٹ غائب اور آج تک پیشیاں لواحقین بھگت رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور حکمرانی میں مگر ایف آئی آر کے اندراج میں رکاوٹ ڈالی گئی نہ جے آئی ٹی کی تشکیل میں تاخیر ہوئی اور نہ جے آئی ٹی کی ابتدائی سفارشات کو سردخانے میں ڈالا گیا۔ سانحہ کے صرف تین دن بعد ایڈیشنل آئی جی سمیت کئی افسران اپنے عہدوں سے فارغ اور وقوعہ پر موجود اہلکار تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302کے تحت گرفتار۔ گزشتہ تیس سال کے دوران پاکستان میں اس سے قبل یہ کب ہوا؟ حکومت پولیس اور دیگر اداروں کی طرف سے دبائو کا شکار ہو گی، یہ احساس بھی جائز کہ کہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشغول فورسز عدم تحفظ اور بد دلی کا شکار نہ ہوں۔ ذیشان کے بارے میں دستیاب معلومات کی بنا پر حکومت باقی تین افراد کی شہادت کو کو لیٹرل ڈیمج کا نتیجہ قرار دے کر لیت و لعل کر سکتی تھی جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بے رحم دہشت گرد وارداتوں کے لیے صرف دوسروں نہیں اپنے بیوی بچوں کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ کئی واقعات میں ان بدبختوں نے اپنے ہی معصوم بچوں کو گود میں بٹھا کر خود کش دھماکے کیے۔ مشکوک فرد اور گاڑی کی نشاندہی کے بعد ایکشن کرنے والوں کو کس قدر احتیاط کرنی چاہیے؟اور وہ کہاں تک اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کولیٹرل ڈیمج کے امکانات کو کم سے کم کریں؟یہ اہم سوال ہے لیکن ہم ایسے ساحل پر کھڑے تماشائی لہروں سے کھیلنے والوں کا حال جان سکتے ہیں نہ کوئی صائب مشورہ دینے کی پوزیشن میں۔ ذیشان کے عدیل حفیظ اور عثمان سے رابطوں کی مصدقہ اطلاعات ،عدیل حفیظ سے ملنے والی فون سم، ہونڈا سٹی 7039اور آلٹو گاڑی کا کئی مواقع پر ایک ساتھ سفر اور افغانستان سے ٹریس ہونے والی کالز کے بعد خفیہ اداروں کو ذیشان کے بارے میں شک نہیں رہا تھا کہ وہ دہشت گردوں کا سہولت کار ہے تا ہم اس سوال کا جواب جے آئی ٹی دے گی کہ اس نے شادی پر جانے والی فیملی کو کیسے ٹریپ کیا اور آپریشن ٹیم بے قصور خاندان کو بچانے میں کیوں ناکام رہی؟ عمران خان اور عثمان بزدار نے مگر بروقت اقدام سے یہ تاثر پختہ کر دیا کہ دونوں قوت فیصلہ سے مالا مال ہیں اور مشکل صورتحال میں کسی تذبذب کا شکار ہوتے نہ مصلحت و دبائو کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ایں کار زا تو اَید و مرداں چنیں کنند۔ انداز کار اگر یہ رہا اور بروقت فیصلوں کی روایت برقرار، تو باقی معاملات میں بھی تحریک انصاف کی حکومت عوامی توقعات پر پورا اترسکتی ہے۔ خارجہ پالیسی تو کامیاب ہے۔سب سے بڑا ثبوت افغانستان میں قیام امن کے لیے عمران خان کے مؤقف کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی اور چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، ملائیشیا، قطر وغیرہ کی طرف سے دستیاب بھرپور اقتصادی و معاشی تعاون ہے۔ اسد عمر نے گزشتہ روز معاشی اصلاحات کا جو پیکج قومی اسمبلی میں پیش کیا وہ اپوزیشن اور میڈیا کی پھیلائی ہوئی ڈس انفرمیشن کے برعکس اور کافی حد تک عوام دوست ہے۔ مہلک اور متعدی مرض کا علاج ڈسپرین اور پیناڈال سے کرنے کی سابقہ حکومتی پالیسیوں نے پاکستان کو کینسر میں مبتلا کیا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے سیاسی مفاد اور عوامی مقبولیت کے لیے اقتصادی و معاشی حقائق سے چشم پوشی کی۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے قومی معیشت کا بیڑا غرق کیا، سستی شہرت کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کو ڈالر کی قدر مستحکم رکھنے، برآمدات بڑھانے کے بجائے قرضوں کی رقم سے سود کی قسطیں ادا کرنے اور گیس و بجلی کی قیمتیں خاص سطح پر برقرار رکھنے کا قومی جرم ہوا اور منی لانڈرنگ کو فروغ دیا گیا،جس کی سزا قوم کے علاوہ موجودہ حکومت بھگت رہی ہے جبکہ عمران خان، اسد عمر اور ان کے ساتھی ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کے بجائے تلخ فیصلے کر رہے ہیں، کینسر کا علاج کیموتھراپی اور شعاعوں کے ذریعے ہو تو تکلیف بہت ہوتی ہے مگر زندگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ درد کش ادویات سے مریض وقتی تکلیف سے بچ جاتا ہے مگر جینے کی رہی سہی امید ختم کر بیٹھتا ہے کیموتھراپی تکلیف دہ عمل ہے مگر جان بچانے میں مدد گار۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ وہ محدود عددی اکثریت کی وجہ سے ایم کیو ایم، مسلم لیگ(ق) اور اختر مینگل جیسے اتحادیوں کے محتاج ہیں۔ یہ پرانے کھلاڑی حکومت کو بلیک میل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے، جس کا بھرپور فائدہ تجربہ کار اپوزیشن اور حکومت مخالف میڈیا کو پہنچ رہا ہے۔ اپوزیشن اور دوسرے مفاد پرست عناصر کی یہ سرتوڑ کوشش ہے کہ عمران خان اور قومی سلامتی کے اداروں کے درمیان جلد سے جلد کشمکش کا آغاز ہو اور موجودہ حکومت بھی اس انجام کو پہنچے، جس سے میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنی حکومت کو دوچار کیا۔ لیکن میری اطلاع کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی میں فی الحال راوی چین لکھتا ہے۔ قومی ادارے پہلی بار ایک ایسے وزیر اعظم سے تعاون کر رہے ہیں جو محض سیاستدان نہیں، حقیقی معنوں میں لیڈر ہے۔ سیاسی و ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر سوچنے اور قومی مفاد میں تلخ فیصلے کرنے والا، عالمی لیڈروں بالخصوص امریکی وزیر خارجہ مائیکل رچرڈ پومپیو سے ملاقات میں عمران خان کی باڈی لینگوئج،انداز گفتگو اور باوقار طرز عمل نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو مسحور کیا اور افغان مسئلہ پر عمران خان کی واضح سوچ برگ و بار لا رہی ہے۔ اگر اس سال امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا ہوا تو یہ کلغی عمران خان کے سر سجے گی اور طالبان خان کی پھبتی کسنے والے منہ چھپاتے پھریں گے۔ احتساب کا عمل بھی 2019ء میں جاری رہے گا اور امکان غالب ہے کہ باقیماندہ کرپٹ عناصر اس قابل نہیں رہیں گے کہ عمران خان کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کر سکیں۔ پاکستان کو ساٹھ کے عشرے کی طرح ترقی و خوشحالی کی منزل کی جانب گامزن کرنے والی حکومت کے راستے کی رکاوٹیں اس قدر دور ضرور ہو جائیں گی کہ وہ اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنا سکے۔ امن، استحکام اور شفافیت کا ماحول بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کر لیگا اور ترقی و روزگار کے وہ مواقع پیدا ہوں گے جس کا وعدہ عمران خان کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سانحہ ساہیوال پر حکومت کا رد عمل حوصلہ افزا اور جرأت مندانہ رہا۔ حکومت اگر سبق سیکھتی اور ساری توجہ پولیس اصلاحات پر مبذول کرتی ہے تو یہ خلیل خاندان کی قربانی کا ثمر ہو گا۔ عمران خان کابینہ اور پنجاب حکومت میں نتیجہ خیز ردوبدل سے عوام کو حیران کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فوری ایکشن اس کا ثبوت ہے اور مزید بہت کچھ ممکن ہے۔ مجھے تو سچی بات ہے یہ کمپنی صرف چلتی نہیں پھولتی،پھلتی نظر آتی ہے کہ موسم اچھا، پانی وافر، مٹی زرخیز اور کاشتکار جفاکش و پرعزم۔ عمران خان نے گاڈفادر کی کمر توڑ دی، باقیات سے نمٹنا مشکل کیوں؟ نومید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ کم کوش تو ہیں لیکن، بے ذوق نہیں راہی