ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پڑھ کر مایوسی ہوئی‘ عمران خان کی حکومت سولہ ماہ بعد اگر کرپشن کا گراف کم کرنے میں ناکام رہی تو قصور عالمی ادارے کا ہے نہ اپوزیشن کا جسے میاں شہباز شریف کے بقول کپتان نے دیوار میں چنوا دیا ہے۔ اپوزیشن کے نمایاں لیڈر جیل میں ہیں یا ضمانت پر‘ باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں‘ تحریک انصاف نے 1996ء میں اپنی تشکیل کے بعد احتساب اور انصاف کا نعرہ بلند کیا تو کسی کو اُمید نہ تھی کہ ظلم کے عادی اس کرپشن زدہ معاشرے میں کوئی سیاسی جماعت احتساب کے نعرے پر انتخابی کامیابی حاصل کر سکتی ہے مگر 2018ء کے انتخابات میں یہ انہونی ہو کر رہی اور تحریک انصاف نے انتخابی معرکہ سر کر لیا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان کا فوکس احتساب رہا اور کرپٹ عناصر کی سرکوبی کو انہوں نے اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے نمایاں قائدین کے علاوہ اہم بیورو کریٹس اور کاروباری افراد کی دھڑا دھڑ گرفتاریوں کے بعد یہ توقع بے جا نہ تھی کہ اب ہر سطح پر کرپشن کی حوصلہ شکنی ہو گی اور بڑی مچھلیوں کا انجام دیکھ کر چھوٹی مچھلیاں عبرت پکڑیں گی‘ سولہ ماہ تک عمران خان پاکستانی عوام اور عالمی رائے عامہ کو باور بھی یہی کراتے رہے کہ بالائی سطح پر کرپشن برائے نام رہ گئی اور نچلی سطح پر کمی کے لئے موثر اقدامات جاری ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے اس دعوے کو مگر باطل ثابت کیا‘ بتایا کہ نیب کے سوا کسی حکومتی ادارے نے کرپشن کے خاتمے کے لئے موثر کردار ادا کیا نہ 2018ء کے مقابلے میں 2019ء میں کرپشن کم ہوئی الٹا ایک درجہ بڑھ گئی‘ اتفاق کی بات ہے کہ امریکہ میں دو درجہ بڑھی۔ اپوزیشن سولہ ماہ کے دوران عوام کو باور کراتی رہی کہ ریاست مدینہ تشکیل دینے کی دعویدار حکومت کی ناقص پالیسیوں سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور یہ کرپشن کو ختم کرنے کے لئے حکومت اور نیب کے اقدامات کا نتیجہ ہے۔عرصہ دراز سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستانی معیشت محنت سے زیادہ کرپشن کے بل بوتے پر پھلتی پھولتی ہے ہمارے بعض دانشور تو کرپشن کو جمہوریت کا حسن اور اہم ترین جزو سمجھتے اور موقع بے موقع کرپشن کی وکالت کرتے ہیں ۔موجودہ حکومت اور نیب نے کرپٹ عناصر کے خلاف مہم تیز کی تو ہر طرف سے شور اٹھا کہ یہ مہم جمہوریت اور معیشت دونوں کے لئے نقصان دہ ہے‘ جب بیورو کریسی اور تاجر برادری کے عدم تعاون سے معیشت کا پہیہ جام ہوا تو حکومت مخالف عناصر نے خوشی سے بغلیں بجائیں کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ پروپیگنڈا اس تواتر سے ہوا اور عمران خان کے اپنے نیب زدہ قریبی ساتھیوں نے اس قدر زور شور سے ہاں میں ہاں ملائی کہ ریاست کو کرپشن کے عفریت سے ہر قیمت پر نجات دلانے کے خواہش مند ادارے اور بذات خود وزیر اعظم بھی نیب کے پر کترنے اور اسے محض سیاستدانوں کے احتساب تک محدود رکھنے پر مجبور ہو گئے‘ بلی کے بھاگوں چھینگا ٹوٹا‘ اپوزیشن کے سوکھے دھانوں پر اوس پڑی اور نیب میں ترامیم کا آرڈیننس عجلت میں منظور ہو گیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مگر اپنی رپورٹ میں پاکستان کا درجہ گرا کر یہ تاثر ابھارا ہے کہ احتساب کی علمبردار حکومت بھی اصلاحات نہ کرنے کی بنا پر کرپشن کو روکنے میں ناکام رہی‘ جبکہ نیب کے اقدامات کی تعریف کر کے ٹرانسپیرنسی نے حکومت اور اپوزیشن کے علاوہ تاجر برادری و بیوروکریسی کے اس پروپیگنڈے کی نفی کی کہ یہ انتقامی ادارہ ہے جو صرف حکومت کے مخالفین کو سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کرتا ہے حکمران اب اس رپورٹ کو غلط حقائق پر مبنی قرار دے کر جھٹلانے کی کوشش کریں گے‘ ماضی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹوں کے ساتھ ہماری اشرافیہ یہی حشر کرتی رہی میاں نواز شریف کے دور میں تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے عادل نامی پاکستان میں نمائندے کو سرکاری ملازمت دے کر رام کیا گیا تھا کہ بانس رہے نہ بجے بانسری‘ ملازمت مل جانے کے بعد ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کیسی رپورٹیں دیں کسی کو یاد نہیں۔ رپورٹ آنے کے بعد حکومت کے سامنے دو راستے ہیں‘ ایک تو یہ کہ نیب کے پر کترنے کے بجائے اسے مزید مضبوط اور فعال بنائے تاکہ کرپشن کے خاتمے میں یہ ادارہ ریاست اور حکومت دونوں کی مدد کر سکے‘ دوسرا راستہ یہ ہے کہ رپورٹ کو جھٹلا دے اور اسے مخالفین سے ملی بھگت کا نتیجہ سمجھ کر چپ سادھ لے‘ حقیقت اس سے بدلے گی نہیں۔ رپورٹ عمران خان کے ان حامیوں اور خیر خواہوں کے لئے مایوس کن ہے جو کپتان سے یہ اُمیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں کہ اور کچھ ہو نہ ہو تحریک انصاف کے دور حکمرانی میں کرپشن کی وبا کا خاتمہ ضروری ہو گا کہ خان خود کرپٹ ہے نہ کسی دوسرے کی کرپشن کو برداشت کرتا ہے۔ رپورٹ اگر حقائق پر مبنی ہے تو ثابت یہ ہوا کہ محض سخت قوانین اور کسی دیانتدار حکمران کے اقتدار سنبھالنے سے کرپشن جیسی قبیح اخلاقی ‘ سماجی اور معاشی برائی کا خاتمہ ممکن نہیں‘ قوم کی اخلاقی تربیت اور ہر سطح پر زمام کاردیانتدار افراد کے ہاتھ میں تھمائے بغیر یہ محض خواب ہے جس کی مثبت تعبیر ممکن نہیں‘ عمران خان کے بارے میں اس کے بدترین مخالفین نے بھی کبھی یہ الزام عائد نہیں کیا کہ وہ مالی حوالے سے کرپٹ ہے لیکن اس کی وفاقی اور صوبائی ٹیم کے اہم ارکان کو کوئی مالیاتی سکینڈل سامنے نہ آنے کے باوجود لوگ اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ میں ڈھال سکیں یا کرپشن کے خلاف عمران خان کی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے اہل ہوں۔ چند روز قبل مسلم لیگ(ق) کے رہنما کامل علی آغا نے الزام لگایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں رشوت کے نرخ بڑھ گئے ہیں تو خوب شور مچا مگر جس طرح کہ 1988ء میں جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اعتراف کیا تھا کہ ساڑھے تین سالہ جمہوری دور میں رشوت کے نرخ پچاس روپے سے پانچ سو روپے تک جا پہنچے ہیں کامل علی آغا کی بات جھٹلانا ممکن نہیں‘ عمران خان علمائ‘ میڈیا‘ اساتذہ ‘ تحریک انصاف کے دیانتدار کارکنوںا ور لیڈروں سے مل کر قوم میں کرپشن سے نفرت اور کرپٹ لوگوں سے حقارت کی فضا پیدا نہیں کرتے اور نیب کی طرح احتساب کے دوسرے اداروں پولیس‘ ایف آئی اے‘ ایف بی آر کو سیاسی اثرورسوخ سے آزادی نہیں دلاتے‘ انہیں بھی فیس(Face) نہیں‘ کیس (Case)دیکھ کر فیصلہ کرنے کے قابل نہیں بناتے تو کرپشن کے خلاف مہم کامیابی سے ہمکنار ہونا مشکل ہے ٹیم پر بھی جتنی جلد وہ نظرثانی کر لیں‘ ملک و قوم اور ان کے ذاتی مفاد میں ہے ‘ موجودہ ٹیم تو اپنے ساتھ انہیں بھی لے ڈوبے گی۔ منتخب نمائندوں اور بیورو کریسی کو ترقیاتی فنڈز سے حصہ رسدی نہ ملا تو وہ کسی اور مد سے اپنے مال پانی کا اہتمام کریں گے ‘پٹواری اور تھانیدار رشوت کے ریٹ بڑھا کر اور تاجر گراں فروشی کے ذریعے اپنی بری عادت پوری کرے گا ۔ریاست اور عوام بے چارے دونوں سزا بھگت رہے ہیں‘ مزیدبھگتیں گے اور ملک کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسی تنظیمیں اپنی رپورٹوں سے بدنام کریں گی‘ لوگ کہیں گے تبدیلی کا فائدہ؟