نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے 15مارچ سے مزارات‘ سینما گھر کھولنے اور شادی ہالز میں ان ڈور تقریبات کی اجازت دیدی ہے۔ این سی او سی نے تجارتی مراکز کے لئے رات 10بجے تک بندش کی پابندی بھی ختم کر دی ہے۔دفاتر کے 50فیصد عملہ کو گھر سے کام کرنے کی جو پابندی لگائی گئی تھی اسے ہٹا دیا گیا ہے۔ اجلاس میں تفریحی پارکوں کو کھلا رکھنے کے اوقات پر پابندی ختم کرنے کر دی گئی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے فیصلے اس لحاظ سے اہم ہیں کہ کورونا کے انسداد کی خاطر اختیار کئے گئے حفاظتی اقدامات سے کاروباری و سماجی زندگی ایک سال سے معطل ہے۔ پابندیوں میں نرمی سے روزگار کے مواقع اور سماجی رابطوں کا سلسلہ بحال ہو گا۔ فروری 2020ء میں ہمسایہ ملک چین کے علاقے ووہان میں ایک نئی وبا کے کیس رپورٹ ہونے لگے۔ جو علامتیں نوٹ کی گئیں ان کے مطابق متاثرہ شخص کو بخار‘ کھانسی ‘ سردرد کی شکایت ہوتی‘ کورونا‘ پھیپھڑوں پر سب سے زیادہ اثر کرتا ہے ساتھ ہی جسم میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے۔ تشویشناک پہلو یہ تھا کہ اس وبا کے روک تھام اور علاج کے لئے کوئی دوا موثر ثابت نہ ہوئی۔ چین نے میڈیکل سائنس سے ہنگامی مدد نہ ملنے پر چند ایس او پیز اختیار کئے۔ کورونا مریض کو دوسروں سے الگ رکھنا‘ متاثرہ علاقے میں مکمل لاک ڈائون اور انسانی میل ملاقات پر مبنی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ان حفاظتی تدابیر کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ پاکستان میں کورونا کی وبا پہنچی تو علاج معالجے اور انسداد کے حوالے سے چین جیسی استعداد ہی تھی۔ چین کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر حکومت نے فوری طور پر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر قائم کیا جس میں متعدد وفاقی وزرائ‘سکیورٹی اداروں کے افسران اور صحت کے شعبے سے ماہرین لئے گئے۔ روزانہ کی بنیاد پر نگرانی کا نظام وضع کیا گیا۔ شروع میں خوف کا عالم تھا۔ بڑھتے ہوئے مریض اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافے سے دہشت کا ماحول تھا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے افواہوں کو روکنے کے لئے کورونا سے متعلق اطلاعات براہ راست اپنی نگرانی میں جاری کرنا شروع کیں۔کورونا کی ٹیسٹ کٹ‘ لباس اور حفاظتی تدابیر کا اعلان کیا گیا۔ پاکستانی سماج کی ساخت میں کئی تقریبات کو اہمیت حاصل ہے۔ نماز کی ادائیگی کے لئے لوگ مساجد میں جانا پسند کرتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات سے لے کر مرگ تک لوگ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں لازمی شریک ہوتے ہیں۔ ملک بھر میں شہری آبادی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے نئے بازار اور کاروباری مراکز قائم ہو رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں کروڑوں بچے زیر تعلیم ہیں‘ کھیلوں کی سرگرمیاں ہیں‘ تھیٹر اور سینما گھر ہیں۔ جہاں شائقین جمع ہو کر خط اٹھاتے ہیں۔ حفاظتی تدابیر کا تقاضا تھا کہ سب اجتماعی تقریبات اور سرگرمیوں پر پابندی عاید کر دی جائے۔ ساتھ ہی ان مقامات کو اس وقت تک بند کر دیا جائے جو اجتماعی میل ملاقات کے دوران کورونا پھیلانے کا ذریعہ بن سکتے تھے۔اسی خیال سے شادی ہال کے اندر تقریب پر پابندی لگا دی گئی۔ ان حفاظتی اقدامات کے نتیجے میں کورونا کی وبا قابو میں رہی۔ اللہ کا شکر ہے کہ کورونا نے دنیا کے جن چند ممالک میں سب سے کم جانی نقصان کیا ان میں سے ایک پاکستان ہے۔کورونا کے پہلے مرحلے کے دوران حکومت اور اس کے ذیلی اداروں کی کارکردگی معقول رہی۔ دسمبر 2020ء کے دوران کورونا کی دوسری لہر نے پوری دنیا کو پھر سے لپیٹ میں لے لیا۔ اب تک دنیا بھر میں 25لاکھ سے زاید افراد کورونا کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وطن عزیز میں اب بھی روزانہ 50کے لگ بھگ افراد کورونا کی وجہ سے جاں بحق ہو رہے ہیں جبکہ ہر روز ایک ہزار افراد اوسطاً نئے مریض کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ یقینا مشکلات موجود ہیں لیکن کورونا سے نمٹنا اب پہلے کی طرح ناممکن نہیں رہا۔ پچھلے ایک سال سے جو حفاظتی اقدامات متعارف کرائے گئے ان سے وبا کو محدود رکھنے میں مدد ملی ہے‘ ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی گئی ہے۔ ٹیسٹنگ نظام موثر اور تیز رفتار بنا دیا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ملک میں کورونا ویکسین لگانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ کورونا سے متاثرہ افراد کی دیکھ بھال کرنے والے طبی عملے کو چین سے موصول ویکسین لگا دی گئی ہے۔ اگلے مرحلے میں حکومت نے 60برس سے زاید عمر کے افراد کی رجسٹریشن کا عمل شروع کر دیا ہے جنہیں جلد ہی ویکسین لگا دی جائے گی۔ کورونا کی وبا کا مکمل خاتمہ ابھی دور ازقیاس ہے تاہم اس وائرس کی موجودگی میں انسان اپنی روز مرہ مصروفیات کی انجام دہی کے قابل ہو رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو کورونا کا اب خوف نہیں رہا۔ پاکستان طبی تحقیق میں پسماندہ ہے لیکن کورونا سمیت کئی مہلک امراض کے علاج اور انسداد کی خاطر حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی نظر نہیں آئی۔ کرپشن‘ سیاسی عدم استحکام اور ہر وقت بحرانوں کے بھنور میں گھومتے پاکستان کے لئے یہ صورت حال امید افزا ہے کہ ترقی کرنے اور خود کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے اس کی استعداد اپنی جگہ موجود ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے تازہ فیصلوں سے کئی ماہ سے منجمد زندگی ایک بار پھر حرکت کرتی دکھائی دے گی۔ان فیصلوں سے معاشی و سماجی فوائد حاصل ہوں گے لیکن اس امر کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ جن حفاظتی تدابیر پر عمل کر کے پاکستان نے خود کو محفوظ کیا ان پر عملدرآمد کا سلسلہ ذاتی و اجتماعی سرگرمیوں کے دوران جاری رہنا چاہیے۔