وفاقی حکومت نے کورونا کے تیز رفتار پھیلاو کے باعث تمام تعلیمی ادارے اور مدارس 26 نومبر سے 10جنوری2021 تک بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق دسمبر میں ہونے والے امتحانات ملتوی کر دئے گئے ہیں جبکہ مختلف جماعتوں اور پیشہ وارانہ تعلیم کے کورسز میں داخلے کے انٹری ٹیسٹ حسب اوقات منعقد ہوں گے ۔ہدایات کے مطابق 24 دسمبر تک طلبا کو آن لائن تعلیم دی جائے گی ،پچیس دسمبر سے دس جنوری تک کے ایام کو موسم سرما کی چھٹیاں شمار کیا جائے گا۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑبچے تعلیمی اداروں میں بطور طالب علم رجسٹرڈ ہیں ،پنجاب ،سندھ،بلوچستان اورسندھ میں لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نجی شعبہ بچوں کی نصف تعداد کو تعلیم مہیا کررہا ہے۔ کورونا وائرس کے باعث جہاں پوری دنیاکے معمولات متاثر ہوئے ہیں، وہیں سکولوں کی بندش سے تعلیم وتدریس کا عمل شدید متاثر ہوا ہے۔ کورونا کی پہلی لہر میں بغیر کسی منصوبہ بندی سکولوں کی بندش سے سب سے زیادہ نقصان بچوں کی تعلیم کا ہوا ہے۔ ملک بھر میںہزاروں نجی تعلیمی ادارے ہیں جو کئی لاکھ بچوں کو تعلیم مہیا کررہے ہیں۔ ان سکولوں سے چار لاکھ تدریسی و غیر تدریسی عملے کا روزگار وابستہ ہے۔ لاک ڈائون سے تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد متاثر ہوئے ہیں، خاص طور پر متوسط طبقے کے افراد کا روزگار بند ہوجاتا ہے۔ پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی (PSRA)کے اعداد وشمار کے مطابق ان اسکولوں سے وابستہ لاکھوں ملازمین بے روزگار ہوچکے ہیں۔ عمارتوں کے مالکان بھی کرائے کی عدم ادائیگی پر اسکولوں کی عمارات خالی کرا رہے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت نے تاحال تعلیمی اداروں کو کوئی رہنمائی فراہم نہیں کی، حکومتی اداروں کو ضائع ہونے والے وقت کے تناسب سے کورسز میں کمی کرکے سالانہ امتحانات اس مختصر کورس کے تحت لینے چاہئیں، بصورتِ دیگر اس کا نقصان طلبہ وطالبات اور اساتذہ کرام کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ 2017-18ء کے این ایس ایس او کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ دیہی علاقوں میں بیشتر طالب علم غربت یا بڑوں کی کم فہمی کی وجہ سے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ تعداد کتنی زیادہ بڑھے ، اس کا اندازہ مشکل نہیں ہے۔ اس بار بھی جنوری میں جب سکول کھلیں گے تو نہ جانے کتنے بچے ایسے ہوں گے جو صرف غربت کی وجہ سے سکول چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ تعلیم کی یہ حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ آن لائن کلاسز کا تجربہ پاکستان میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ورچوئل یو نیورسٹی کر چکی ہیں لیکن ان کے ہاں ریکارڈ شدہ لیکچر ہوتے ہیں براہ راست لیکچر کا سلسلہ کورونا کے دوران سامنے آیا اور بالکل نیا ہے۔ یہ کتنا سود مند ہے اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس کے ذریعے اساتذہ اور طلبہ و طالبات رابطے میں ہیں۔ اوسط ذہن رکھنے والے بچے تو صرف اپنی حاضری درج کرنے کے لئے آن لائن کلاسز میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ آن لائن کلاسز کے وقت بچوں کے سوالات بہت کم آتے ہیں۔ کبھی کسی بچے کی نیٹ سپیڈ کم ہوتی ہے تو کبھی ٹیچر کی آواز بچوں تک ٹھیک سے نہیں پہنچ پاتی۔ اور اس میں کافی وقت برباد ہوتا ہے۔ کئی کئی گھنٹے موبائل کے سامنے وقت گزارنے کی وجہ سے بچوں پر شدید ذہنی دباؤآتا ہے۔ جو بچے آن لائن کلاسز نہیں لے پاتے وہ احساس کمتری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بھارت میں درجہ نہم کی ایک بچی نے صرف اس لئے خود کشی کر لی کیونکہ اس کے پاس آن لائن کلاس میں شرکت کے لئے اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تھی۔کورونا میں مثبت اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کوویڈ کی وجہ سے خوراک پر اثر پڑا اور روایتی دیسی کھانوں کا احیا ہوا ہے۔ گھریلو نسخے اور ٹوٹکے بحال ہوئے ہیں۔ ٹریفک کی کمی کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی آئی ۔ بچوں اور والدین کے درمیان ربط میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت اور والدین کورونا کی گزشتہ لہر کو بھگت چکے ہیں ،تعلیمی نظام کس طرح اس وبا کے دوران فعال رکھا جا سکتا ہے یہ منصوبہ بندی پہلے کی نسبت اب آسان ہے۔حکومت لیکچر سیریز کے لئے ریڈیو سے مدد لے سکتی ہے،انٹرنیٹ کی سہولیات کو پھیلایا جا سکتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبا آن لائن تعلیم کی سہولت سے استفادہ کریں۔ کورونا کی دوسری لہر پہلے سے شدید ہے۔ حکومت کی جانب سے ماسک کے استعمال‘ سینی ٹائزر اور سماجی فاصلے کے حوالے سے شہریوں کو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی ہدایات کی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف معاشی اور کاروباری سرگرمیوں کو تحفظ دینے کے لیے دکانوں اور مارکیٹوں کے اوقات مقرر کرنے اور اجتماعات کو محدود رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حکومت اپنی ذمہ داری کا خیال کر کے تعلیمی ادارے بند کرنے کا مشکل فیصلہ کر چکی ہے۔ اب یہ پاکستان کے تمام شہریوں کا فرض ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کریں۔ والدین کو یاد رکھنا چاہیے کہ تعلیمی ادارے بچوں اور ان کے خاندان کو کورونا سے بچانے کے لیے بند کئے گئے ہیں اگر والدین نے اس وقت کو تفریحی چھٹیاں سمجھ کر ضائع کیا تو بچے کی تعلیم متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ کورونا کے انسداد کی قومی کوششوں کو بھی دھچکا پہنچ سکتا ہے۔