اگرچہ غم بھی ضروری ہے زندگی کے لئے مگر یہ کیا کہ ترستے رہیں خوشی کے لئے عید کا دبائو تھا اور حکومت پریشان کہ کیا کیا جائے۔ تاجر تو جیسے بغاوت پر اترنے والے تھے کہ ان کا سیزن جا رہا تھا۔ ایسے میں سپریم کورٹ نے حکومت کی مشکل آسان کر دی کہ پورا ہفتہ مارکیٹیں اور شاپنگ مالز کھلے رہیں گے۔ بلھے شاہ نے یونہی نہیں کہا تھا’’پنج رکن اسلام دے تے چھیواں ہے گاٹک۔ جے نہ ہووے چھیواں تے پنجو جاندے مک‘‘ واقعتاً غریب دیہاڑی دار اور چھوٹے کاروبار والے فاقوں پر آ گئے تھے۔کچھ لوگ خوددار تو راشن بھی قبول نہیں کرتے۔ ساری باتیں درست اور کاروبار زندگی کے بحال کرنے کو لاکھ جواز ،مگر ایک بات میں اب کے پوری دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہوش و حواس نہیں کھونے چاہئیں۔ زندگی میں میں بھی رجائیت پسند ہوں۔ مثبت پہلو دیکھنے والا اور شاید آپ کی طرح میں بھی موجودہ وبا کو کوئی ڈرامہ سمجھتا تھا اور کم از کم اسے بہت سیریس نہیں لیتا تھا۔ مگر اب جبکہ میرے ایک قریبی دوست اس کا شکار ہوئے تو میں نے فرض جانا کہ آپ کو اس حقیقت سے آگاہ کروں کہ اب یہ سنی سنائی نہیں رہی بلکہ کسی کی ہڈ بیتی صد فیصد درست ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ چوکچھ میں بتانے جا رہا ہوں‘ ہم سب کی رہنمائی کرنے کے لئے کافی ہے۔ مجھے یہ سب کچھ ’’کتاب سرائے‘‘ کے جمال الدین افغانی کی پوسٹ سے پتہ چلا کہ ہمارے ایک مشترکہ دوست کورونا کا شکار ہو گئے۔ سوچا کہ لاک ڈائون ختم ہوتا ہے تو ان سے جا کر حاجی صاحب کی تعزیت کروں گا مگر اچانک یہ کیا ہوا کہ طارق مقبول یعنی حاجی صاحب کا بیٹا اچانک کورونا کا شکار ہو گیا اور پھر میں نے نذیر محمد صاحب کو فون کیا۔ کیا کہتا ’’ روپڑا میں آپ ان کو حوصلہ دیتے ہوئے‘‘۔ کورونا شاید اتنا مہلک نہیں کہ ہزاروں لوگ اس سے جانبر ہوتے۔ اصل میں اس کا علاج ایک عذاب ہے یعنی اس کا علاج کوئی نہیں اور ڈاکٹر اس پر پریکٹس ضرور کرتے ہیں۔ بس یہی بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں جو مجھے بتائی گئی اور میرا دل صدمے سے بھر گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ طارق مقبول کو چند روز قبل کھانسی کی شکایت ہوئی۔ چغتائی لیب سے کورونا ٹیسٹ کروایا تو وہ مثبت نکلا اور پھر یہیں سے وہ ایک غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے کہ طارق کو ایک نجی ہسپتال لے گئے۔ انہوں نے کمرہ دیا اور اس کا علاج شروع کیا۔ تین دن بعد ایک اور ٹیسٹ کیا جو منفی آیا۔ معزز قارئین میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اب کورونا ٹیسٹوں کی رپورٹس میں تضاد عام ہے۔ آپ بھی سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہونگے۔ کورونا ہو یا نہ ہو اس کی دہشت اس قدر پھیلا دی گئی ہے کہ کمزور اعصاب کا مالک شخص ہمت ہار دیتا ہے۔ خیر اس بات کو یہیں چھوڑتے ہیں طارق مقبول کا ٹیسٹ جب منفی آ گیا تو گھر والوں نے ڈاکٹرز کی منتیں کیں کہ انہیں چھٹی دے دی جائے۔ مگر وہ نہیں مانے اور کہا کہ ابھی چوبیس گھنٹے میں ایک اور ٹیسٹ ہو گا۔ خون لیا گیا اور پھر ایک روز کے بعد متعلقین کو بتایا گیا کہ خون کا سیمپل کہیں گم ہو گیا ہے لہٰذا ایک اور سیمپل لیا جائے گا۔ آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ پرائیویٹ کمرے کا میٹر چل رہا ہے روزانہ کا خرچہ ساٹھ ستر ہزار ہے۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق کورونا کا بھی ڈینگی کی طرح کوئی پراپر علاج نہیں۔ بخار کو کم کرنا ہوتا ہے۔ وائرس اپنا ایک سرکل مکمل کر کے ختم ہو جاتا ہے۔ عمر رسیدہ اور دوسری بیماریوں میں مبتلا لوگ اس سرکل کو برداشت نہیں کر سکتے۔ جمال الدین افغانی نے بھی اپنی پوسٹ میں لکھا کہ وہ ہسپتال سے افغانی کو فون کر کے التجا کرتا رہا کہ کسی طرح اسے ہسپتال سے نکالا جائے۔ میری مجبوری کہ میں ہسپتال کا نام کالم میں نہیں لکھ سکتا کہ ایسے ہی پہلے بھی مجھے دو کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس آ گیا تھا کہ شہرت خراب کی۔ میں آپ سے دست بستہ عرض کروں گا کہ آپ حکومتی ادارے میں جائیں تو بہت بہتر ہے جیسے کہ میوہسپتال اور ایکس پو سنٹر میں وارڈ بنے ہیں۔ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری محسوس کریں کوئی حرج نہیں کہہ ہم پلاسٹک دستانے پہن لیں اور اچھا سا ماسک۔ اپنی اور دوسروں کی حفاظت ازبس ضروری ہے اور گھر میں بھی سماجی فاصلہ رکھیں۔ خود کو صاف ستھرا رکھیں سینی ٹائیزر استعمال کریں۔ آپ سوچ رہیں ہونگے کہ یہ باتیں بار بار دہرائی جا چکی ہیں۔ میرے دوست!یاددہانی میں کیا حرج ہے۔ دوسرا کوشش کریں کہ خدا نہ کرے اگر ایسا کیس ہو جائے تو گھر ہی میں خالی کمرہ کورنٹائن کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ ویسے عید کی شاپنگ پر سب کچھ یعنی زندگی تک دائو پر لگا دینا کون سی سمجھداری کی بات ہے۔ اگر ایک عید نئے کپڑوں اور جوتوں کے بغیر بھی ہو گئی تو کیا قیامت آ جائے گی۔ اصل بات تو صفائی ستھرائی‘ نہانا‘ دھونا‘سونا کھانا بچوں کو عیدی دینا‘ غریبوں میں پیسے تقسیم کرنا اور ایسے ہی دوسرے کئی مصرف ہیں۔ اللہ تو نیتوں کو دیکھتا ہے۔ انسانی جانوں کی بقا کے لئے کی گئی احتیاط یا تدبیر بھی تو عید عبادت ہے۔ حکومت کو بھی اپنے فرائض سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ کم از کم ایک حکم تو باقاعدہ نافذ ہو جانا چاہیے کہ ہمیشہ کے لئے کاروبار علی الصبح شروع اور شام کو پانچ بجے بند۔ یہ بابرکت بھی ہو گا اور بجلی وغیرہ کی بچت بھی کرے گا۔ لوگوں کارہن سہن عادت و اطوار بھی بدلیں گے۔ پھر خود ہی نئے صبح و شام پیدا ہونگے۔ دس گیارہ بجے بیدار ہونے والے بھی مشرق سے نکلتا سورج دیکھیں سکیں گے۔’’سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے‘‘