جس طرح سائنس فکشن کی کتابیں آگے چل کر سائنسی ایجادات کا باعث بنیں؛ اسی طرح آج کل ہمارے سازشی نظریے سچے واقعات بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ جس وقت چین میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹی ، اس وقت الزامات کی زد میں وہ امریکہ تھا جو آج کل چین پر تہمت کے تیر برسا رہا ہے۔ کورونا کے سلسلے میں امریکہ نہ صرف چین کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے بلکہ وہ اقوام متحدہ کے طبی ادارے ڈبلیو ایچ او پر بھی بہت ناراض ہے اور اس ادارے کی امداد اس نے ان دنوں بند کردی ہے جب دنیا ایک بہت بڑی وبا کا مقابلہ کر رہی ہے۔ امریکہ کا الزام ہے کہ کورونا کو آؤٹ کرنے کی غلطی چین نے کی اور چین کے اس عمل کی پردہ پوشی ڈبلیو ایچ او نے کی۔ امریکہ اس موقف سے اپنی جان بچا رہا ہے کہ اگر اسے پہلے پتہ ہوتا تو وہ چین کے ساتھ فاصلہ رکھتا، اس طرح امریکی عوام کورونا کے عذاب سے محفوظ رہتی۔ ٹرمپ حکومت اپنے آپ کو عوامی احتساب سے بچانے کے لیے نہ صرف چین پر الزام عائد کر رہی ہے بلکہ وہ چین پر مقدمہ کرنے کے بارے میں سنجیدگی سوچ رہی ہے۔ اس سلسلے میں چین پہلے تو چپ رہا مگر جب اس کو محسوس ہوا کہ امریکہ کورونا کا سارا ملبہ اس پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تب اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ جو اس قسم کی حرکتوں سے باز رہنا چاہئیے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ چین کے انتباہ پر اس قسم کی حرکات سے باز آجا ئے گا؟یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے خلاف رہا ہے مگر امریکہ کو کبھی یہ موقعہ نہیں ملا کہ وہ عالمی منڈی میں چین کا راستہ روکے۔ اس بار کورونا کی وجہ سے امریکہ کو اس بات کے امکانات نظر آ رہے ہیں کہ چین کے دامن میں کورونا کا داغ لگائے اور مغرب کے عوام کو چین کے خلاف بھڑکائے اور انہیں بتائے کہ کورونا کی وجہ سے ان کے جتنے پیارے بھی اس جہان سے رخصت ہوئے ان کا سبب چین تھا۔ اس وجہ سے مغرب کے عوام میں چین کے خلاف فطری نفرت کا جذبہ بیدار ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ امریکہ چین کو کورونا کی علامت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے لیے پوری دنیا میں خوف اور ڈر کا ماحول تیار کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس طرح چین کا نام سنتے یا چینی چیز کو دیکھتے لوگ خوف کا شکار ہوجائیں اور اس طرح چین کی پہاڑ جیسی انڈسٹری آہستہ آہستہ بیٹھ جائے اور اس ماحول میں امریکہ اپنے گھر کی صنعت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا۔چین امریکہ کی اس چال کوجانتا ہے مگر چین موجودہ حالات میں بہت مجبور ہے۔ چین کو معلوم ہے کہ کورونا کی نئی لہر پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ اٹھ سکتی ہے اور چین کو اپنی اس مجبوری کا بھی علم ہے کہ اس نے دنیا کے ساتھ کاروباری تعلقات تو رکھے ہیں مگر پاکستان اور ایک دو اور ممالک کے علاوہ اس کے دیگر ممالک یا ان ممالک میں وہاں کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایسی انڈراسٹیڈنگ نہیں جس کی وجہ سے ان سخت حالات میں وہ ممالک یا ان ممالک میں موجود سیاسی قوتیں چین کے حق میں کھڑی ہوجائیں۔ اس طرح چین کو پہلی بار معاشی قوت ہونے کے باوجود رشتوں میں غربت کا احساس ہو رہا ہے۔ چین جانتا ہے کہ امریکہ اس کو بلیک میل کر رہا ہے۔ چین کو معلوم ہے کہ امریکہ کورونا کا کیس اس کے گلے میں ڈال کر چین کے امیج کو تباہ و برباد کرنے پر تلا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ چین کے خلاف جو چالاکیاں کر رہا ہے اگر ان کو دیکھا جائے تو یہ معاملہ نہایت پستی میں پڑا ہو نظر آئے گا۔ چند دن قبل امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر چین سے غلطی ہوئی ہے تو اس کا اعتراف اس کے حق میں جائے گا۔ امریکہ کو چین ہر طرح سے اپنی سازش کے حصار میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین کو امریکی کے مذکورہ سازشی جال سے محفوظ رکھنے کے لیے میڈیا بھی اہم کردار ادا کرتا نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ چین نے کبھی اس رخ پر سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ اس حد تک کمزور اور تنہا ہو سکتا ہے۔ دنیا کے عسکری ادارے اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ چین صرف معاشی طور پر بہت بڑی قوت نہیں ہے بلکہ چین عسکری حوالے سے بھی ناقابل شکست ہے۔ چین کا خیال تھا کہ بشمول امریکہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ چین کے پاس نہ صرف بہت بڑی فوج ہے بلکہ چین کے پاس ہر وہ ہتھیار موجود ہے جو امریکہ یا روس کے پاس ہے۔ جنگی دنیا میں چین کی جاسوسی کے چرچے بہت پرانے ہیں۔ چین نے یہی سوچا تھا کہ اگر اس کے پاس ہتھیار بھی ہیں اور اس کے پاس دولت بھی ہے اور دنیا کی مارکیٹ پر اس کے گرفت ہے تو پھر اس کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر چین کو یہ معلوم نہیں تھا کہ حالات کا دھارا کسی بھی وقت پلٹ سکتا ہے۔ اس کی طاقت پر کسی وقت کوئی ایسا حملہ ہو سکتا ہے جس کے بارے میں اس نے نہ صرف احتیاطی تدابیر نہ کی ہوں بلکہ سوچا تک نہ ہو۔ کورونا کچھ اس قسم کی صورتحال بن کر چین پر حملہ آور ہوا۔ چین کے بعد کورونا نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لیا۔ اس وقت کورنا کو تاریخ کی سب سے خطرناک عالمی وبا قرار دیا جا رہا ہے مگر دنیا کو اس مصیبت میں مبتلا کرنے کا الزام چین کے سر پر لگایا جا رہا ہے۔ جب کہ چین اچھی طرح سے آگاہ ہے کہ دنیا میں کاروباری کامیابی کے لیے اچھے امیج کا ہونا لازمی ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیاں کشمکش کورونا کے دوران پیدا نہیں ہوئی۔ چین اور امریکہ کی مخالفت کا ماضی بہت طویل ہے۔ امریکہ اس وقت بھی چین کا مخالف تھا جب سرد جنگ کا دور اپنے عروج پر تھا اور اس وقت نہ صرف روس اور امریکہ بلکہ روس اور چین کے درمیان ایک طرح کی دبی ہوئی جنگ جاری تھی۔ روس کی خواہش تھی کہ دنیا کے سارے سوشلسٹ ممالک اس کی قیادت کو تسلیم کریں اور بین الاقوامی پالیسی میں ان کا کردار روس کے اشارے پر ہونا چاہئیے مگر اس نظریاتی غلامی سے چین نے دو ٹوک انکار کیا۔ اس لیے چین اور روس کی کبھی نہیں بنی۔ چین کے نظریاتی رہنما اور جدید چین کے بانی ماؤزے تنگ کا مشہور قول ہے کہ ’’دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘‘ اس اصول کے تحت تو چین اور امریکہ کے درمیاں تعلقات دوستانہ ہونے چاہئیے تھے مگر امریکہ نے ابتدا سے چین پر کڑی نظر رکھی۔ امریکہ نے ترقی کے سلسلے میں چین سے کوئی تعاون نہیں کیا۔ امریکہ نے چین کے خلاف اپنے پروپیگنڈہ کا محاذ جاری رکھا۔ چین نے بھی کبھی امریکہ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ چین کے چیئرمین ماؤزے تنگ کا یہ قول بھی مشہور ہے جس قول کے حوالے سے اس نے امریکہ کو ’’کاغذی شیر‘‘ قرار دیا تھا۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ نے چین کے خلاف اپنے مورچے گرم کردیے۔ امریکہ نے برسوں تک چین کو انسانی حقوق کی پائمالی کرنے والا ملک ثابت کرنے کی کوشش کی۔ چین کی ’’ایک بچہ‘‘ پالیسی کو امریکہ نے بہت اچھالا مگر ان کو کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ چین اپنے داخلی حالات کے حوالے سے سخت پالیسی رکھتا ہے مگر امریکہ نے چین میں گھس کر نوجوانوں میں بغاوت کا شعلہ بھڑکانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے 1989 ء کے دوران چین کے مشہور چوراہے ’’تیانمن اسکوائر‘‘ پر جو مظاہرے ہوئے اور اس کے بعد جو خون ریزی ہوئی اس واقعہ کو چینی عوام تو کیا دنیا کے سیاسی حلقے بھی فراموش نہیں کرسکتے۔ امریکہ نے چین کے خلاف تازہ سازش سی پیک کے سلسلے میں کی۔ امریکہ نے پاکستان پر بہت دباؤ ڈالا کہ وہ چین سے سی پیک کا معاہدہ نہ کرے مگر پاکستان نے چین سے دوستی نبھانے کے لیے امریکی دشمنی کی پروا نہیں کی۔ چین کو پاکستان کا یہ کردار اچھی طرح سے یاد ہے۔ چین اور پاکستان کی دوستی اس وقت ماضی سے زیادہ اہم بن جاتی ہے جب امریکہ چین کو کورونا کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔