دو روز قبل محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی بارہویں برسی تھی،لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کے دوران، کیا خوبصورت جملہ بولا ہے جناب بلاول بھٹو زرداری نے، ’’ کوفے کی سیاست سے مدینہ کی ریاست نہیں بن سکتی‘‘ اور کیا جواب دیا ہے حکومت کی ترجمان معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے ،’’بی بی کا مشن اور کمیشن اکٹھا نہیں چل سکتا‘‘۔یہی ہماری سیاست ہے، جملے بازی، جگت بازی اور ایکدوسرے کی توہین، اسکو کوفے کی سیاست کہہ لیں یا عوام کو بیوقوف بنانے کی۔ کیا کوئی بتائے گا خاص طور پر بی بی کی شہادت کے بعد حکمران رہنے والے اسکے وارثان کہ بھٹو کی پنکی ، شاہنواز اور مرتضیٰ کی لاڈلی بہن ، جن کو اس نے اپنی زندگی میں کھویا اور اتنے دردناک حالات اور طریقے سے کھویا کہ خدا کسی دشمن کو بھی اس دکھ سے آشنا نہ کرے۔پھر خود بھی اسی قسم کے ظلم کا شکار ہو کر، یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا،اس خون کا حساب لینے والے جواپنے تھے لیکن ہر قسم کا اختیار ہونے کے باوجود انہوں نے شہید کے قاتلوں کوڈھونڈنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اسکے خون کے صدقے حکمرانی پانے والوں نے بی بی اور اسکے بابا کے نام پر ووٹ تو لئے لیکن جو حق شہید رانی کا تھا وہ کبھی لوٹانے کی کوشش نہیں کی۔اگر کچھ تھا تو دولت جمع کرنے کی ہوس، اقتدار سے چمٹے رہنے کا شوق، جس کے لئے شہیدوں کے خون کو بیچ بیچ کر یہ ظالم تھکنے کو نہیں آ رہے۔اقوام متحدہ کی ٹیم کے سربراہ کہتے ہیں کہ بینظیر کے وارث اسکی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں تھے بلکہ انہیں مجبور کر رہے تھے کہ انکی لکھی ہوئی رپورٹ کو اپنا لیا جائے اور اسکی کاپی بھی انہیں دی گئی۔ بینظیر شہید کی برسی پر خیال تھا کہ بی بی شہید کے وارث اسکو یاد کرینگے، لیکن وہاں تو منظر ہی کوئی اور تھا۔چیخ و پکار تھی لیکن اس لئے نہیں کہ انہوں نے گیارہ سال پہلے دھرتی کی لاڈلی کو کھو دیا تھا، بلاول نے اپنی ماں اور آصف زرداری نے اپنی انمول بیوی کو کھو دیا تھا۔چیخ و پکار اس مال و اسباب کی بدولت تھی جس کے کھونے کا انکو ڈر لاحق ہو چکا ہے۔رونا اس بات کا تھا کہ وفاق اور باقی صوبے تو پہلے ہی ہاتھ سے گئے کہیں سندھ کی حکمرانی بھی نہ چھوڑنی پڑ جائے۔ وہ عیش و آرام جو لوگوں کے نام پر ترقیاتی منصوبے بنا کر اپنی ترقی پر لگایا جا رہا تھا اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی جو واقعی عوامی جماعت تھی، جس قائد کی محبت میں لوگوں نے اسکی پھانسی کا سن کر خود سوزی کی،بھٹو کی بیٹی نے باپ کی وراثت کو جن مشکل حالات میں سنبھالا اور گیارہ سالہ سیاہ رات کے بعد ایک روشنی کی صورت میں عوام کے لئے امید کا پیغام لائی، وہ جماعت اب زرداریوں اور انکے حواریوں کی لوٹ مار کے تحفظ کے لئے تل گئی ہے۔ آصف زرداری صاحب کا پیغام بھی سنوایا گیا جو عوام کے درد میں گھلے جا رہے تھے۔ اس پیغام کو سٹیج پر کھڑے ہو کر سننے والوں میں کون کونسے چہرے دیکھ رہاہوں۔ کسی میں جرات نہیں تھی کہ کھڑا ہوتا اور کہتا کہ بی بی اور اسکے بابا نے قربانی اس دن کے لئے نہیں دی تھی کہ آپ اپنے کرتوتوں کے خمیازے سے بچنے کے لئے انکا خون بیچ دو۔اگر سب کے سامنے پوچھنے کی ہمت نہیں تھی تو بند دروازوں کے اندر جب پارٹی کا اجلاس ہو تا ہے تو پوچھ لیں کہ محترم ہر دفعہ آپ کا نام ہی کیوں آتا ہے۔ ہم بھی تو اسی پارٹی میں دہائیوں سے ہیں وزیر بھی رہے ہیں ہمیں تو کوئی مسٹر پرسنٹ وغیرہ کے نام سے نہیں پکارتا، ہمارے تو جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ میں نام نہیں آتے۔ کم از کم ہمیں تو بتا دیں کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟جے آئی ٹی کی رپورٹ جھوٹی ہو گی لیکن سچ کیا ہے یہ بھی تو پتہ چلے۔بی بی شہید کو مرنے کے بعد تو سچ سننا نصیب ہو کہ اسکے وارث بے گناہ ہیں۔لیکن لگتا ہے کہ بھٹو خاندان کو کسی کی نظر کھا گئی ہے۔ انکے نصیب میں مر کر بھی چین نہیں ہے۔ ماں قبر کے اندر کیسے کرب میں ہو گی جب اسکا لاڈلا بیٹا بلاول نیب میں پیشی بھگت رہا ہو گااور اس کی طرح عدالتوں کے چکر لگا رہا ہو گا اور اسکو پتہ بھی نہیں ہو گا کہ کہ اسکے نام پر بھی اسکے اپنوں نے کیا کیا گل کھلائے ہوئے ہیں۔وہ کیسا لمحہ ہو گا جب اسکو پتہ چلے گا کہ عوام کو ہی نہیں اسے بھی دھوکے میں رکھا گیا۔ وہ اس عوام کا سامنا کیسے کرے گا جو اسکی ماں اور نانا کے نام پر جان دینے کو تیار رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔کیا ان ظالموں نے ایک لمحے کے لئے نہیں سوچا کہ ایک دن انہیں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا سامنا کرنا ہے۔ کیا یہ آب حیات پی کر آئے ہیں کہ اس خوف سے مبرّا ہیں اور اتنی دولت بھی اسی لئے جمع کر رہے ہیں کہ اگلی کئی صدیوں کا بندوبست کر لیں۔کہتے ہیں کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی تو یہ دولت ساتھ لے کر کیسے جائیں گے یا پھر فراعین مصر کی طرح اپنی قبروں میں ڈالروں کے صندوق ساتھ دفن کرائیں گے۔ کچھ رحم کریں ،اس قوم پر نہیں تو اپنے پیاروں پر ہی کر لیں، شہیدوں کی اس جماعت پر ہی کر لیں جس نے ہمیشہ اس ملک کے غریب عوام کو ایک امید دی ہے، زندہ رہنے اور لڑنے کا حوصلہ دیا ہے۔ آپ کو کیا معلوم آپ نے ضیاء کا دور دیکھا ہوتا تو آج آپ میں حکمرانوں کو دھمکی دینے کی ہمت نہ ہوتی۔ افسوس صد افسوس وہ لوگ بھی گنگ ہو چکے ہیں جنہوں نے جان کی بازی لگا کر اس جماعت اور اسکے نظریے کو پروان چڑھایا۔ ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ایسی بھی کیا مجبوری ہے جناب، اگر بھٹو اور بی بی شہید کی پارٹی اور اسکی اولاد کو بچانا ہے تو، خدارا، اسکی تباہی کے درپے لوگوں کو بے نقاب ہونے دیں، ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔