ملک میں جاری تاریخ کے بدترین سیلاب میں عوام کے درد میں ’نڈھال‘ حکمرانوں کی سرگرمیوں اور کچھ خبروں پر نظر ڈالئے۔ خبر ہے کہ ایک طاقتور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون پارلیمینٹیرین کے ارب پتی شوہر نے سیلاب سے متاثرہ افراد میں پچاس پچاس روپے کی امدادی رقم بانٹی ہے۔ اس ’خطیر رقم‘ کی تقسیم کی ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ ارکانِ قومی اسمبلی نے ایک مہینے کی تنخواہ سیلاب کے متاثرین کی بحالی کے لئے دان کردی ہے۔ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان میں پانچ رشتے دار سیلاب میں حکومتی مدد کے طویل انتظار میں طوفانی لہروں کی نظر ہوگئے۔اْن میں سے صرف ایک زندہ بچ گیا ہے جو شاید عمر بھر ٹراما کی تکلیف میں مبتلا رہے گا کہ کس طرح اس کے بھائی کئی گھنٹے حکومتی امداد کے منتظر رہے اور تھک ہا ر کر سیلاب میں بہہ گئے۔ سیلابی پانی میں پھنسی ایک معمر خاتون اپنی بکری کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئی تو اْس کی بکری پھدک کر پانی میں گر گئی۔ بکری کو بچانے کیلئے خاتون نے بھی پیچھے چھلانگ لگادی۔ یوں دونوں سیلاب میں بہہ گئیں۔ کچھ مزید خبروں پر نظر ڈالیں اور’عوامی خدمت‘کے جذبے سے سرشار عوام کی کمر کسنے والے رہنماؤں کی ترجیحات کا اندازہ لگائیں۔ ’سندھ،بلوچستان میں چھ دہائیوں کے بعد رواں سال ریکار ڈ بارشیں ہوئیں: حکام‘۔ ’ڈیم ہوتے تو سیلابی پانی سے نقصانات کے بجائے ترقی ہوتی: سابق وزیراعظم پاکستان‘۔ ’میرے حق میں اور کتنی گواہیاں درکار ہیں؟ ایک اور سابق وزیراعظم پاکستان‘۔ ’سکھر: وزیراعظم، وزیرخارجہ کی آمد پر سیلاب متاثرہ خواتین کے ساتھ پولیس کی بدتمیزی، ایک بے ہوش‘۔ ’کھانے کو کچھ ہے تو دے دیں: سیلاب متاثرین، بلوچستان کی دہائی‘۔ ’ایک سابق وزیراعظم پاکستان کی بیٹی نے انتخابی مہم کی قیادت عوامی ریلیف سے مشروط کردی‘۔ ’سیلاب متاثرین کو فوری مدد کی ضرورت، عالمی برادری آگے آئے: صدر‘۔ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا دو ماہ کی تنخواہ دینے کا اعلان‘۔ ’سیلاب، پاکستان علماء کونسل کا اے پی سی بلانے کا مطالبہ‘۔ ’بے بس سیلاب زدگان کو دیکھ کر یقین ہوگیا، ملک عوام نہیں، اشرافیہ کا ہے: رہنماء مذہبی جماعت‘۔ بانی ِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے دورِ حکمرانی کو نکال کر چوہتر سال ہوگئے ہیں یہ ملک ایسے ہی چل رہا ہے۔ عوامی رہنماؤں نے عوام کے ٹیکسوں سے ملنے والی محض ایک مہینے کی تنخواہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو دینے کا اعلان کیا ہے۔جنہوں نے چاروں صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ذمہ داری لی، حکومت کی باگ ڈور سنبھالی، وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ڈیم ہوتے تو سیلابی پانی سے تباہی کی بجائے ترقی ہوتی۔ جنہیں خزانہ دار بنایا گیا، وہ عوام کو تنبیہ کررہے ہیں کہ آپ ڈوب رہے ہیں، آپ ڈوب جائیں گے، آپ جہنم جیسی زندگی گزار رہے ہیں‘۔ یہ نہیں بتارہے کہ کن کی وجہ سے؟ کچھ جید رہنماء سیلاب کو قدرتی آفت قرار دے کر بری الذمہ ہورہے ہیں۔ عوام مٹی کے ٹیلوں پر کھڑی حکومتی امداد کا انتظا ر کرتے کرتے عزیز و اقارب، جانوروں اور مال و اسباب کو طوفانی لہروں کی نظر ہوتے دیکھ رہی ہے۔ سات دہائیوں سے اِن بے شرم حکمرانوں نے ڈیم نہیں بننے دیئے،دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تباہ کرکے رکھ دیا۔ پانی کو ذخیرہ کرنے اور اسے قابل ِ استعمال بنانے کی بجائے اِس طوفان کو فطرت کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بھارت، چین، جاپان، امریکہ، جرمنی، فرانس، برطانیہ، اور دیگر ممالک میں بھی ایک ہی ہے مگر اْن ممالک نے دریاؤں کے کناروں کو پکا کرلیا ہے۔ بے لگام دریاؤ ں کو ایک طے شدہ راستے پر چلنے پر پابند کردیا ہے۔ جگہ جگہ ڈیم اور نہریں نکال کر صحراؤں کو قابل ِ کاشت بنا لیا ہے۔ کئی جگہوں پر پن بجلی گھر بنا کر اِسی پانی سے توانائی حاصل کی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں ہر سال بدترین سیلاب کا انتظار کیا جاتا ہے۔ حکمران اس انتظار میں رہتے ہیں کہ ملک و عوام تباہی سے دوچار ہوں اور وہ عالمی برادری سے امداد کے نام پر بھیک مانگ سکیں۔ عالمی برادری سے ملنے والی امداد میں بھی اس قدر کرپشن کی جاتی ہے کہ عالمی برادری کا بھی اعتماد اْٹھ گیا ہے۔آج سے تقریباََ بارہ سال قبل 2010ء میں پاکستان میں سیلاب کے دوران اقوام متحدہ کی سفیر خیر سگالی اداکارہ انجلینا جولی پاکستان تشریف لائیں تاکہ پاکستان کی امداد کا تعین کیا جائے۔واپسی پر انجلینا جولی نے اقوام متحدہ میں اپنی جو رپورٹ پیش کی اْسے پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔انہوں نے لکھا ’مجھے یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوا جب میرے سامنے حکومت کے بااثر افراد سیلاب سے متاثرین کو دھکے دیکر کر مجھ سے ملنے نہیں دے رہے تھے۔ مجھے اس وقت اور تکلیف ہوئی جب وزیراعظم پاکستان نے یہ خواہش ظاہر کی اور مجبور کیا کہ میرے خاندان کے لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میرے انکار کے باوجود وزیراعظم کی فیملی خصوصی طیارے پر مجھ سے ملنے کیلئے ملتان سے اسلام آباد آئی اور میرے لئے قیمتی تحائف بھی لائی، وزیراعظم کی فیملی نے میرے لئے کئی اقسام کے طعام سے میری دعوت کی، ڈائننگ ٹیبل پر انواع اقسام کے کھانے دیکھ کر مجھے شدید رنج ہوا کہ ملک میں لوگ فاقوں سے مر رہے تھے اور یہ کھانا کئی سو لوگوں کیلئے کافی تھا جو صرف آٹے کے ایک تھیلے اور پانی کی ایک چھوٹی بوتل کیلئے ایک دوسرے کو دھکے دیکر ہماری ٹیم سے حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔مجھے حیرت ہوئی کہ ایک طرف بھوک، غربت اور بد حالی تھی اور دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس اور کئی سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت، ٹھاٹھ باٹھ، حکمرانوں کی عیاشیاں تھیں‘۔ انجلینا جولی نے اقوام متحدہ کو مشورہ دیا کہ پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ امداد مانگنے سے پہلے شاہی پروٹوکول، عیاشیاں اور فضول اخراجات ختم کریں۔ آ ج بارہ سال بعد اس سے بھی کئی گنا بڑا سیلاب آیا ہے اور آج بھی وہی صورت حال ہے، ووٹر بھوک سے مر رہے ہیں اور حکمرانوں کی عیاشیاں جاری وساری ہیں۔ کسی شاعر نے حالات کی خوب ترجمانی کی ہے کہ کِتھے نیں عمران وغیرہ؟ ڈْب گئے جے انسان وغیرہ! زرداراں دے شہر وی آئے؛ پانی دے طوفان وغیرہ! شہبازاں نْوں کون جگاوے؟ کون کرے اعلان وغیرہ؟ نہ لبھیا پرویز الٰہی، نہ کوئی عثمان وغیرہ! مولانا نْوں لبھو آ کے؛ چَھڈن کوئی فرمان وغیرہ! ملک ریاض نْوں میسج بھیجو؛ لے کے آوے دان وغیرہ! شاہ محمود تے پیر گیلانی؛ ٹْر گئے نیں گیلان وغیرہ! این ڈی ایم اے سْتی رہ گئی؛ کون بچاندا جان وغیرہ! کون سنبھالے مجبوراں نوں؟ کون کرے احسان وغیرہ؟ ہور نہ اْنگل چْک حکیما!مارن گے دربان وغیرہ!