ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سرابراہ کا عہدہ سنبھالا۔ اس حوالے سے بھارتی فضائیہ کیلئے ایف ۔16طیاروں کی خریداری کیلئے امریکی فرم لاک ہیڈ مارٹن کیلئے وکالت کا کام کر رہے تھے۔ لاک ہیڈ مارٹن کو کنٹریکٹ ملنے سے ٹاٹا کو ان دیکھ ریکھ ،پرزے سپلائی کرنے اور بھارت میں ان طیاروں کو تیار کرنے کا کام مل جاتا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1980ء میں واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانہ میں پوسٹنگ کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش شروع کر کے ان کی ایک دوست کے روپ میںشناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریئر کو آگے بڑھانے میں بلاواسط طور پر خاصی مدد کی۔ من موہن سنگھ نے جب ان کو امریکہ ڈیسک کا انچارج مقرر کیا تو جوہر ی معاہدہ کو انجام تک پہنچانے میں امریکہ نے خاصی رعایت سے کام لیا۔ بعد میں بطور امریکہ میں بھارتی سفیر کے ہوتے ہوئے انہوں نے مقامی بھارتی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرواکے انکا دل جیت لیا۔ ان کے دور میں بھارت نے امریکہ کے ساتھ دو اہم معاہدوں پر دستخط کئے، جن میں امریکی افواج کو خطے میں لاجسٹکس فراہم کرنا اور فوجی اطلاعات کوڈز کا تبادلہ شامل ہیں۔ کرناڈ کے مطابق ان معاہدوں کے ڈرافٹ بھارتی فارن آفس کے بجائے واشنگٹن سے ہی تیار ہو کر آئے تھے۔ شاید جے شنکر کے امریکی دوست ان کا بوجھ کم کرنا چاہتے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جے شنکر کی تعیناتی کا ایک اور مقصد قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال کو کسی طرح سے قابو میں رکھنا بھی تھا۔ خفیہ ایجنسیوں کی کمانڈ ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہوئے وہ مودی کے رفقا میں خاصے طاقت ور ہوتے جارہے ہیں۔ گو کہ مودی نے ان کے صاحبزادے شوریہ دوبال کو اتراکھنڈ سے حالیہ انتخابات میں منڈیٹ دینے سے منع کر دیا ، مگر جے شنکر کی تعیناتی کے بعد اجیت دوبال کو بھی وزیر کا درجہ دینا پڑا۔ اس سے قبل برجیش مشرا، شیوشنکر مینن اور کے آر نارائنن کو جونئیر وزیر کا درجہ دیا گیا تھا۔ پچھلی حکومت میں مودی نے تو قومی سلامتی مشیر کو صرف سیکرٹری رینک دی تھی۔ بار بار یاد دلانے کے باوجود بھی مودی نے دوبال کو جونیئر وزیر کا درجہ نہیں دیا تھا۔ مگر اپنی دوسری اننگ شروع کرتے ہی دوبال کو وزیر کا درجہ دیا۔ جے شنکر کے لئے سب سے بڑا امتحان ایران سے تیل، چاہ بہار بندرگاہ اور روس سے ایس ۔400میزائل شیلڈخریداری کے سلسلے میں امریکہ سے مراعات حاصل کروانا ہے۔ پچھلی حکومت میں وزیر خارجہ نے انتخابات کی گہما گہمی کے دوران اپنے امریکی ہم منصب مائیکل پومپیو سے فون پر بات چیت کرکے بھارت کو استثنا ء دینے کی درخواست کی تھی ۔ مگر پومپیو نے مداخلت کرنے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایشو اب ان کی دست راست سے باہر ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھارت اور ترکی کو روس سے میزائل شیلڈ اور ایران سے تیل کی خریداری کے متعلق خبردار کیا ہے۔ بھارت تو ایرا ن تیل کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے، مگر چاہ بہار بندر گاہ اور میزائل شیلڈ کے سلسلے میں امریکی معاونت کا خواستگار ہے۔ جس دن مودی حلف لے رہے تھے، بالکل اسی دن امریکہ نے بھارتی مصنوعات پر ٹیکس لگا کر ایک طرح سے بھارت کو ایک مسیج دے دیا۔ صدر ٹرمپ کیلئے مسئلہ ہے کہ اگر وہ بھارت کو کسی بھی طرح کی کوئی چھوٹ دیتے ہیں تو ترکی کو بھی رعایت دینی پڑے گی ۔ اس ماہ کے آخر میں جاپان میں جی ۔20کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر مودی اور صدر اردگان ٹرمپ سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ترک صدر کے مشیر ابراہیم کالن نے انتخابی گہما گہمیوں کے درمیان بھارت کے دورہ پر جاکر قومی سلامتی مشیر سے ملاقات کرکے ایران سے تیل اور روس سے ہتھیارو ں کی خرید کے حوالے سے مشترکہ موقف اختیار کرنے کی پیشکش کی تھی، جس کا بھارت نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ جے شنکر کے وزارت خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد شایدامریکہ اب اپنے قابل اعتماد اتحادی کی عزت و مان کا خیال کرکے بھارت کو کوئی رعایت دے، جس کا فائدہ ترکی کو بھی ملنے کی امید ہے۔ ٭٭٭٭٭