صحافت کی دشت نوردی میں چار دہائی ہونے کو آرہی ہے۔ پرنٹ یعنی جب تک اخبار ات و جرائد سے وابستگی رہی ۔۔۔ تو پاس پڑوس تک ہی جان پہچان تھی۔مگر 2002میں جب پاکستان کے پہلے نجی چینل پر رونمائی ہوئی تو ، ہفتوں ،مہینوں میں جب ’’سلام ،دعا‘‘ کرنے والا چوتھا ، پانچواں ملتا تو حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات غالب آجاتے ۔ یوں حکمرانوں سے بھی زیادہ قریب سے تعلقات استوار ہونا شروع ہوئے کہ اُس زمانے میں ڈی ایس این جی کااستعمال اتنا عام نہیں ہوا تھا بلکہ الیکٹرانک میڈیا کے ابتدائی چار ،پانچ برسوں میں تو اس کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔خود بڑے بڑے اُس وقت کے طُرم خاں اور ہاں،حکمراں چل کر اسٹوڈیو آتے۔ یوں ملکی سیاست کے تمام چھوٹے بڑوں سے ذاتی تعلق اور نیاز مندی کے باوجود کبھی اچھا نہیں لگا کہ اُن سے اپنے تعلقات کی تشہیر کی جائے ۔اس سے ایک تو خود نمائی ۔۔۔لگتی۔ دوسرے یہ تاثر بھی جاتا کہ آپ اُس وقت حکمرانِ وقت کے آجو باجو بیٹھے مشیروں،وزیروں ،افسروں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہماری پہنچ کہاں تک ہے۔حکمرانوں کی پہنچ تک پہنچنے والے اس سے کیا کیا مراعات لیتے رہے ہیں۔ ۔ ۔ اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا ۔تمہید طول پکڑ رہی ہے۔وزیر اعظم بننے سے پہلے کپتان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیتے کہ بڑی زبردست ٹیم تیارکررہا ہوں۔ تعلیم، صحت،معیشت ،گورننس ۔ ۔ ۔ ہر شعبے میں 1992ء کی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم ۔ ۔ ۔ 2010میں جب لاہور کے مینار پاکستان کے سامنے ہمارے محترم عمران خان کا پہلا عظیم الشان عوامی جلسہ ہوا اور جس میں ٹھاٹھیں مارتے عوامی سمندر میں اکثریت نوخیز نوجوانوں کی تھی۔تو سارا ملک خان صاحب کے مستقبل کے نئے پاکستان کی نوید سے جھوم رہا تھا۔میری چھوٹی بچی اُن دنوں لاہور میں LUMSسے گریجویشن کر رہی تھی ۔اگلے دن بڑے پر جوش انداز میں خبر دے رہی تھی کہ LUMSکے سینکڑوں بچے بچیاں اپنے پیسوں سے کرائے کی بسیں اور ویگنیں لے کر جلسے میں شریک ہوئے ۔ یہ بھی اطلاع دی کہ میری کلاس ٹیچر نے سوال کیا آپ کس کو ووٹ دیں گے تو 30میں سے 29نے پی ٹی آئی کے لئے ہاتھ کھڑے کئے۔یقینا کپتان نے مئی 2013کے الیکشن نئی نوجوان ٹیم سے لڑے ۔ایک دو قریشیوں کو چھوڑ کر غالباً 28قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔اکثریت گمنام ناموں کی تھی ۔خیبر پختونخوا ہ میں تو بڑے خانوں ،مولاناؤں اور خدائی خدمتگاروں کے برج الٹ گئے۔کے پی حکومت کی پر فارمنس بھی اچھی بھلی رہی۔ہاں یہ بتانے کی بھول ہوگئی کہ مئی 2013کے الیکشن سے 48گھنٹے قبل لاہور میں خان صاحب اپنے آخری انتخابی جلسے میں کرین سے گرنے سے ایسے حادثے کا شکا ر ہوئے کہ بس موت پاس سے گذر گئی۔ اور ہاں، ایک بڑا پروفیشنل اسکوُپ یہ ہوا تھاکہ خان صاحب کا لاہور روانگی سے قبل کراچی میں ان کی گاڑی میںمجھے ایکسکلوسِو انٹرویو لینے کا بھی شرف حاصل ہوا۔مزار قائد پر گاڑی پہنچی تو گاڑی کے آگے پیچھے چاروں شیشوں سے پُر جو ش کارکنوں کی ناکیں یوں لگیں تھیں کہ باہر کی ایک جھلک نظر نہیں آرہی تھی۔ گاڑی چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہی تھی۔خان صاحب اس والہانہ جنون کو دیکھ کر کہنے لگے۔الیکشن میں کتنی سیٹیں ملیں گی یہ اندازہ نہیں مگر پارٹی کی تنظیم بڑی مضبوط بن گئی۔ہر شعبے میں زبردست ٹیم یقینا مئی 2013کے الیکشن فری اور فیئر نہیں تھے۔مگر انتخابی دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے دھرنوں میں خان صاحب محض 35پنکچروں پر زور دیتے تھے۔مئی 2013کے الیکشن کے بعد جب شہروں،شہروں ریلیوں میں انٹر ویوز اور غیر رسمی گفتگو ہوئی تو مجھے یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوئی کہ خان صاحب آئندہ یعنی جولائی 2018کو ہونے والے الیکشن کو آخری انتخابی معرکہ سمجھتے ہیں۔اور اسے ہر صورت جیتنا چاہتے ہیں۔عوامی دھرنے سے شریف حکومت کو اکھاڑنے میں ناکامی کے بعد خان صاحب اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ وہ معروف اصطلاح میں electiblesیعنی موروثی خاندانوں کو ساتھ لئے بغیر شریفوں اور زرداریوں کو انتخابی میدان میں شکست نہیں دے سکتے ۔اپنے محترم وزیر اعظم عمران خان کی ایماندار ی ،خلوص نیت اور عام لوگوں کے لئے جذبہ ٔ خدمت کے ساتھ اپنے مشن کے لئے آخری حد تک لڑجانے والے جذبے کے بارے میں بھی قطعی دورائے نہیں ۔دو دہائی میں دھرنوں کے حوالے سے اسٹریٹ پالیٹکس کا بھی بخوبی تجربہ ہے۔مگر معذرت کے ساتھ تاریخ کا ادراک نہیں ۔ماضی کے حکمرانوں کے عروج و زوال کو وہ اگر بغور پڑھ لیتے اور یوں بھی ابھی زیادہ وقت نہیں گیا کہ اگر اب بھی خاص طور پر پاکستان کی 70 کی دہائی کے بعد کی تاریخ پر نظر ڈال لیں تو اس بدقسمت قوم کا بھلاہو نہ ہو خود خان صاحب جن کی کرکٹ اور صحت کے حوالے سے ایک زمانہ معترف ہے۔ ۔ ۔ ایک سیاستدان کی حیثیت سے بھی اچھے نام سے یاد کئے جائیں۔ خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کسی دوسرے سیاستداں کے معترف تھے تو وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے کھوٹے سکے تو خیر سے قصہ پارینہ ہوئے مگر 70کی دہائی میں جس طرح بھٹو صاحب ایک نئی نوجوان ترقی پسند لیڈر شپ کے ساتھ میدان میں اترے۔ اُس نے جتنی بڑی سیاسی کامیابی بھٹو صاحب کو دی اُس کی ماضی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔بھٹو صاحب کی اپنی کرشمہ ساز ،ذہین فطین اسٹیٹسمین کی شخصیت تو اپنی جگہ مگر ذرا اُن کی ٹیم کے چند جواں سال ناموں کا بھی ذکر کرتا چلوں ۔طالب علم رہنما معراج محمد خان، ممتاز دانشور ڈاکٹر مبشر حسن ،مزدور لیڈر مختار رانا،جہاندیدہ سفارتکار جے اے رحیم،ادیب آرٹسٹ حنیف رامے ،سندھ کے تالپور برادران اور ہاں،فیوڈل لارڈ ہوتے ہوئے پُر جوش کمٹڈ غلام مصطفی کھر۔ ۔ ۔سردار ممتاز علی خان بھٹو،غلام مصطفی جتوئی ۔اس ٹیم کی بدولت ہی 1967میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی صرف تین سال بعد وفاق اور تینوں صوبوں کی حکمراں پارٹی بن گئی تھی۔اور پھر سال دو سال ہی میں کیسے کیسے بڑے کارنامے ،اسلامی سربراہی کانفرنس ،پورٹ قاسم ،اسٹیل ملز ،لینڈ ریفارمز،لیبر لاء اور ہاں ایٹمی قوت کی بنیاد رکھنے جیسا شاندار کارنامہ ۔ ۔ ۔ مگر محض دو سال بعد ہی بھٹو صاحب کے اندر کے فیوڈل نے مطلق العنانیت کا روپ دھارنا شروع کیا ،تو ایک ایک کر کے ساری جیالا کمٹڈ نظریاتی ٹیم کا نکال باہر شروع ہوگیا۔اور ان کی جگہ کس ٹیم نے لی۔۔۔سندھ کا گورنر جونا گڑھ کے ایک نواب کو بنایا گیا کہ یہ تو وہ نواب تھا ۔ جو جونا گڑھ پر قبضے کے بعد پہلی فلائٹ سے اپنے ملازموں ،بھیڑ بکریوں اور کتوں تک کو جہاز میں بھر کے کراچی پہنچ گیا تھا۔بلوچستان کا گورنر نواب صاحب لسبیلہ بنائے گئے ۔خیبر پختونخوا کا گورنر شوگر کنگ نواب ہوتی اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کا گورنراورپھر وزیر اعلیٰ نواب صادق قریشی ۔کابینہ میں جو نئی ٹیم بھٹو صاحب لائے یہ وہ سارے تھے جن میں سے بیشترسلطانی گوا ہ بنے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جولائی 1977کے آتے آتے پھر بھٹو صاحب کس انجام سے گذرے اس کی تفصیل میں ذرا بعد میں جاؤں گا ۔ابھی شریف ،زرداری ،مشرف حکومتوں کا ذکر باقی ہے ۔(جاری ہے)