عمران خان کے سامنے بھی وہی مسئلہ ہے جو نوازشریف کے سامنے تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب 2013ء کے انتخابات ہو چکے تھے اور حلف اٹھانے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا تھا۔ درمیان میں خاصا وقفہ تھا۔ عرض کیا تھا کہ جس طرح ایک شخص اپنے ساتھیوں سے پہچانا جاتا ہے، اس طرح ایک حکمران کی صلاحیتوں کا اندازہ اس ٹیم سے ہوتا ہے جو وہ اپنے لیے منتخب کرتا ہے۔ نوازشریف کی بساط سیاست کے بہت سے مہرے تو پہچانے جا رہے تھے مگر عمران خان کے سامنے امکانات کی اتنی لمبی چوڑی بساط بچھی ہوئی ہے کہ پتہ نہیں چل پا رہا ہے کہ کون کس خانے میں فٹ ہوتا ہے۔ پھر ان کی نگاہیں بعض کاموں میں ایسے لوگوں پر بھی ہیں جو بیرون ملک سے بلائے جائیں گے۔ خواب ان کے بہت بڑے ہیں۔ اتنے بڑے کہ اس سے پہلے شاید بھٹو کے رہے ہوں گے۔ وہ فخر ایشیا کہلاتے تھے، عمران خان کے مداح بھی انہیں قدرت کا ایک فقید المثال تحفہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خواب بہت بڑے ہیں اور ہمارے قومی مسائل بھی چھوٹے نہیں ہیں۔ اس لیے میں اس ٹیم کا انتظار کررہا ہوں جومنصہ شہود پر آنے والی ہے۔ کچھ اور بھی عرض کرتا ہوں، پہلے اس حوالے سے ایک جملہ معترضہ بیان ہو جائے۔ میں نے پانچ سال اس پر ضبط کیا ہے مگر اب ممکن نہیں رہا۔ نوازشریف نے جو ٹیم چنی، ان میں ایک شخص پرویز رشید بھی تھا۔ ان صاحب کا آج ایک بیان شائع ہوا ہے کہ چوہدری نثار کو اپنی شکست سے شیر کی طاقت کا اندازہ ہو جانا چاہیے جو شخص اپنی پارٹی کو درپیش ایسی مشکل صورت حال میں ایسا احمقانہ بیان دیتا ہو اس کی نیت اور طینت کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ جب انہیں وزیر اطلاعات بنایا گیا، تو اگرچہ شاید یہ ان معدودے چند وزرا میں سے تھے جن سے ذاتی سطح پر یاداللہ تھی۔ کم از کم ہر ہفتے کا ملنا جلنا تھا مگر ان کی تقرری پر میں نے بے ساختہ کہا تھا کہ یہ شخص کچھ بھی ہوسکتا ہے، مسلم لیگ کا وزیر اطلاعات نہیں ہوسکتا۔ مسلم لیگ، کوئی سی بھی ہو، اپنا ایک مزاج اور کلچر رکھتی ہے، یہ شخص اس میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ اس کا سیاسی پس منظر اور فکری حدود اربعہ اس قابل نہیں کہ اسے یہ ذمہ داری سونپی جائے۔ اس سے بڑی خرابی پیدا ہوگی۔ موصوف سے ان دنوں کسی نے مسلم لیگ کا تذکرہ کیا تو فرمانے لگے، کیسی مسلم لیگ، ہمارا کیا تعلق، ہم تو فائٹر ہیں اور نوازشریف بھی فائٹر ہیں، اس لیے ہم اس کے ساتھ ہیں۔ فائٹر کہاں کے تھے، جیالے تھے جیالے۔ ابھی ان دنوں کہیں فرمایا ہے کہ ہم نے مسلم لیگ کو مولانا مودودی کے شکنجے سے نکال کر دوبارہ قائداعظم کی مسلم لیگ بنا دیا ہے۔ یہاں ان کا اصل مفہوم کیا ہے، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بھارت سے دوستی کرانے کا انہیں مشورہ، فوج سے لڑانے کا انہیں چسکا اور بہت سے کام ہیں جن کے یہ مشورے دیتے رہے۔ میں احتیاط اس لیے برت رہا ہوں کہ بات کو اتنا کھولنا نہیں چاہتا۔ یہ بھلا کوئی موقع تھا کہ پارٹی کے اندرونی جھگڑوں کو اتنے قبیح انداز میں بیان کیا جاتا۔ ع ہوئے تم دوست جسکے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو یہ جملہ معترضہ طویل ہو گیا۔ میں ان دنوں ایسی بحثوں سے اجتناب کررہا ہوں۔ کیا گرما گرم بحثیں چلی ہوئی ہیں۔ کوئی پنجاب کا وزیراعلیٰ بن رہا ہے تو کوئی ملک کا وزیر داخلہ۔ مجھے اندازہ ہے اس وقت عمران خان مشکل میں ہیں۔ مجھے اندازہ ہے مسلم لیگ بھی ایک بڑے امتحان سے دوچار ہے۔ اس کے لیے تو اپنی روح کو سلامت رکھنا بھی دشوار ہورہا ہے۔ عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں اقبال کے اس سیدھے سے شعر کی اصل فکری معنویت اپنی پوری پیچیدگیوں کے ساتھ اس وقت عیاں ہوتی ہے۔ قوم او رقوم کے لیڈر اس مشکل صورت حال سے گزرتے ہوئے بڑے مشکل مرحلوں سے دوچار ہیں۔ میں گزشتہ دو دن سے اپنی قوم کے جواں فکر دانشوروں کے کالم پڑھ رہا ہوں اور سرشار ہورہا ہے۔ میرے اندر بھی ایک ہیجان برپا ہے۔ پتہ بھی کھڑکتا ہے تو دل کانپ اٹھتا ہے۔ خدا کرے ملک کا مقدر درست سمت پر چل پائے۔ عمران اس وقت تک ایک ’’متلون مزاج نوجوان‘‘ ہے جب تک وہ اپنی ٹیم منتخب کر کے اسے شہریاری اور جہاں بانی کے قابل نہیں بنالیتا۔ جی ہاں، وہ نوجوان ہے۔ میں نے یہی کہا ہے۔ قومیں صرف جذبے سے منزل نہیں پایا کرتیں، اس کے لیے سوچی سمجھی حکمت عملی درکار ہوا کرتی ہے۔ اس کے لیے پہلا اور سب سے مشکل قدم اپنی ٹیم کا انتخاب ہے۔ ٹیم کا انتخاب، ساتھیوں کا انتخاب، لیڈر کی اپنی ’’شخصیت‘‘ کی تشکیل ہے اور یہ قومی مزاج کے تعین کی بنیاد ہے۔ ایک مثال دیتا ہوں۔ ہمارے ہاں ایک بہت ہی جلیل القدر حکمران ہوئے ہیں، جنہیں مورخین نے خلفائے راشدہ کے بعد انہی کی صف میں شامل کیا ہے اور جنہوں نے بہت کم عرصے کے لیے حکومت کی، یہی دو ڈھائی سال، مگر ہماری تاریخ پر ایسے گہرے نقوش چھوڑے کہ اہل نظر نے اسے مجدد دین میں شامل کیا، بلکہ اسلامی تاریخ کا پہلا مجدد قرار دیا۔ حضرت عمر بھی عبدالعزیزؒ، امام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولیؒ اللہ کے ساتھ بلکہ سب سے پہلے ان کا نام لکھا جاتا ہے۔ اس وقت ان کی شخصیت پر ایک کتاب میرے سامنے ہے۔ اس میں ایک باب کھلا پڑا ہے۔ اس باب میں بنو امیہ کے تین نامور ترین خلفاء کے عہد کا موازنہ بہت دلچسپ پیرائے میں کیا گیا ہے۔ اس میں جو اصول بیان کیا گیا ہے، وہ بہت عدیم المثال ہے۔ ولید، سلمان اور عمر بن عبدالعزیزؒ کے ادوار کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ولید بن عبدالمالک عمارات وغیرہ کا بانی اور شوقین تھا۔ جب لوگ اس کے زمانے میں ملتے تھے تو ایک دوسرے سے صرف عمارات کا حال پوچھتے تھے۔ اس طرح سلمان بن عبدالمالک کھانے پینے اور نکاح کرنے والا بادشاہ تھا۔ اس کے زمانے میں لوگ صرف شادیوں اور لونڈیوں کا تذکرہ کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ جیسا حکمران ہوتا، لوگ، اس کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ عوام وہی ہوتے ہیں مگر حکمران کے بدل جانے سے ان عوام کا شعور بھی بدل جاتا ہے۔ اس طرح عمر بن عبدالعزیزؒ مسند خلافت پر بیٹھے، ان کے دور حکمرانی کا بنیادی ستون روحانیت تھا۔ ہمارے اقبالؒ نے بھی آج کے عہد میں طرز حکمرانی کے مثالی ماڈل کو روحانی جمہوریت کہا ہے۔ بتایا جاتا ہے، اس زمانے میں لوگ ملتے تو پوچھتے رات کو کونسا وظیفہ پڑھا ہے؟ قرآن کب ختم کیا؟ کتنا باقی ہے؟ اس ماہ کتنے روزے رکھے؟ غرض اس طرح کی باتیں جو اس زمانے میں روحانیت کے طرز عمل کے قریب تر تھیں۔ ڈرو نہیں، میں آپ کو مُلّا نہیں بنا رہا۔ مطلب یہ کہ ہر عہد کا مزاج اس عہد کے حکمران کے مزاج سے متعین ہوتا ہے۔ آج ہم اقبال کی روحانی جمہوریت کے لیے خلفائے راشدہ کے دور کو اگر زندہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا طرز زندگی پاکیزہ، نفیس اور دلربا ہونا چاہیے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے باب میں یہ بھی درج ہے کہ نظام حکومت چلانے کے لیے ان کے کچھ مصاحب تھے، یعنی ساتھی تھے جو انہیں امور سلطنت میں مشورہ دیتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ مل کر رعایا کے معاملات پر غور کیا کرتے تھے۔ اس لیے عرض کررہا ہوں کہ کسی لیڈر کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ اپنے لیے کسی عمدہ ٹیم کا انتخاب کرے، کیونکہ اس سے اس کی شخصیت بھی بنتی ہے، پھر اس لیڈر کی شخصیت کا اثر پوری قوم پر پڑتا ہے۔ اس وقت اسے رعایا کہتے تھے، آج کل عوام کہا جاتا ہے۔ میں نے آسانی کے لیے قوم لکھ دیا ہے۔ اس وقت نظام حکومت اور تھا، آج اور ہے۔ تب خلافت تھی، اب جمہوریت ہے، مگر ایک بات ناقابل مبدل ہے۔ وہ یہ کہ حکمرانی اچھی ٹیم کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اگر کوئی لیڈر یا حکمران اپنی ٹیم کاانتخاب غلط کرتا ہے تو اس کی اس انتخاب میں ایک غلطی بھی دوررس نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ تحریک انصاف میں تو اتنے متنوع عناصر شامل ہو گئے ہیں کہ یہ انقلاب بھی لاسکتے ہیں اور تباہی بھی۔ عمران کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ وہ ان میں سے اپنے ساتھیوں کا انتخاب کیسے کرتا ہے۔ ایسا امتحان نوازشریف کو بھی درپیش نہ تھا جیسا عمران خان کو ہے۔ ایک تو اس لیے کہ ایسی متنوع ٹیم نوازشریف کے پاس نہ تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بھان متی کا کنبہ جواب جوڑا گیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ بھی پتا نہیں کہ کون کہاں سے آیا ہے۔ پھر عمران کی نظر میں ایک جگہ ٹکٹی نہ تھیں۔ وہ دنیا بھر میں بڑی بے چینی سے نظریں دوڑا رہا ہے۔ اسے جدید حکمرانی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے بہت طرح کے افراد کو اکٹھا رکھنا ہے۔ تاہم مثبت پہلو یہ ہے کہ پوری پارٹی میں عمران کا کوئی حریف نہیں ہے۔ وہ پارٹی کا بلاشرکت غیرے مقبول عام لیڈر ہے۔ اب یہ لیڈر عرصہ محشر میں ہے۔ اس کی جھولی میں کئی کھوٹے سکے بھی ہیں۔ بعض تو سکے بھی نہیں ہیں۔ یہ نہیں کہتا کہ کنکر ہیں، مگر یہ کہ مارکیٹ میں ان کا خریدار کوئی نہیں، ان کی چمک دمک بہت ہے، پر ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اور آج کے اعلیٰ درجے کے مصنوعی زیورات کے زمانے میں تو ایسا قطعی نہیں ہوتا۔ عمران کو وہ ٹیم چاہیے جو اس کے خوابوں اور دعوئوں کوسمجھ سکے اور صرف اس کی مقبولیت کے ریلے میں بہہ کر اکٹھی نہ ہوئی ہو۔ عمران اکیلا کچھ نہیں کرسکتا۔ ہوسکتا ہے، اس کے پاس اچھی ’’ سلیکشن کمیٹی‘‘ ہو مگر میدان میں تو کپتان کی کپتانی کا امتحان ہے۔ اس بات کو عمران سے زیادہ کون جانتا ہوگا۔ اب اس کا بحیثیت کھلاڑی امتحان نہیں، بحیثیت کپتان امتحان ہے۔ شاید سلیکشن بھی اسے خود کرنا ہے اور کپتانی بھی۔ اگر کسی نے سلیکشن کر کے ٹیم تھما دی تو پھر کپتان بھی کچھ نہ کر سکے گا۔ خیال تو یہی ہے کہ عمران ایسا کپتان نہیں ہے جو سلیکشن کے معاملات سے بے نیاز رہتا ہو، باقی اللہ کو جو منظور۔