سابق اپوزیشن جو آج کل حکومت ہے وہ عمران خاں کی حکومت کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کہتے رہے‘ سابق حکومت جو آج حزب اختلاف ہے موجودہ حکومت ’’امپورٹڈ‘‘ کہہ رہے ہیں‘ موجودہ حکومت صرف ساٹھ دن پہلے تک عمران خاں کی حکومت سے صاف‘ شفاف اور فوری انتخاب کا مطالبہ کر رہی تھی‘ اپنے مطالبات کو بزور منوانے کے لئے انہوں نے اسلام آباد کی طرف پانچ مرتبہ لانگ مارچ کیا‘ عمران حکومت نے ان کے احتجاج‘ اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی‘ہر دفعہ ان کا احتجاج عوام کی طرف سے خاطر خواہ پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے ناکام رہا‘ عمران خاں نے اپنی اپوزیشن مطالبے یا اپنی جھنجھلاہٹ میں تین مرتبہ آئینی مدت کے اختتام سے پہلے اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کرنا چاہا۔تینوں مواقع پر اسٹیبلشمنٹ نے انہیں ایسا کرنے سے روکا‘بزور طاقت وہ عمران خاں سے اپنا مطالبہ نہیں منوا سکتے ہیں‘ چنانچہ بزور دلائل اور منت سماجت سے انہیں نئے انتخاب کا ڈول ڈالنے سے منع کیا گیا۔اب مسلم لیگ نواز‘ پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کی مخلوط حکومت ہے اور عمران خاں کی قیادت میں اپوزیشن صاف‘ شفاف اور فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آج کی اپوزیشن ہو یا کل کی۔ بنیادی طور پر دونوں ’’فوری انتخابات‘‘ کے مطالبے کی حد تک متفق ہیں۔ اپریل کے شروع میں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے تکینکی بنیادوں پر وزیر اعظم عمران خاں کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد مسترد کر دی تو عمران خاں نے وزارت عظمیٰ پر بحال ہوتے ہی قومی اسمبلی تحلیل کر کے اپوزیشن کا مطالبہ پورا کر دیا۔نئے اور فوری انتخابات کی راہ ہوار کر دی تھی‘تب کون تھا جس نے اپنی طاقت اور اثرورسوخ کو استعمال کر کے انتخابات کی راہ کو روکا؟انتخابات کا اعلان ہو جانے کے بعد اس اعلان کو غیر موثر بنانے والے وہی تھے۔ جنہوں نے پہلے تین دفعہ عمران خاں کو انتخابات کے اعلان سے منع کیا تھا۔ شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی حکومت ’’کار گہنہ شیشہ گری‘‘ سے بھی زیادہ نازک ہے۔ جو زور سے سانس لینے پر بھی گر سکتی ہے۔کیا اس حکومت کی کوئی مجال ہے؟ کہ وہ عمران خاں کے دبائو اور قوم کے مقبول ترین مطالبے کو ماننے سے انکار کرے۔خصوصاً جب وہ مطالبہ ان کا اپنا بھی ہے۔موجودہ حکومت صرف دو ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی ہے۔ موجودہ ایوان سے تحریک انصاف کے اراکین کے مستعفی ہونے کے بعد بچ رہنے والے اراکین کی اکثریت کسی سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ انہی کی ہے جن کے چھو جانے سے لوہا بھی سونا بن جاتا ہے‘ راجہ ریاض اور اس کے ساتھی تحریک انصاف میں انہی کے نمائندہ تھے اور ہیں۔ ورنہ پارٹی سے انحراف کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے‘اس کے باوجود وہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے منحرف ممبران کی طرح نااہل ہونے کی بجائے‘ دھڑلے سے اپوزیشن لیڈر ہیں اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی بن جائیں گے۔شہباز حکومت کی تاب‘ مجال‘ یا طاقت نہیں ہے کہ وہ نئے انتخابات کے مطالبہ کو رد کر سکیں نہ ان کی حکومت اور سول انتظامیہ 25مئی سے اعلان کردہ احتجاجی تحریک کا سامنا کر سکتی ہے۔ 9اپریل کو عمران خاں کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی‘ حکومت ختم ہونے کے 20گھنٹے بعد رمضان المبارک ‘تراویح ‘ گرمی کی شدت کے باوجود صرف ایک ٹویٹ پر‘ بغیر تیاری‘ قیادت اور تشہیر کے صرف پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں نے (بی بی سی کے مطابق 80لاکھ‘ سی این این نے 72لاکھ بتایا) گھروں سے باہر نکل کر احتجاج کرتے ہوئے عمران خاں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا‘ اس دن سے 20مئی تک ایک دن کا وقفہ لئے بغیر تحریک انصاف نے شہر شہر احتجاجی جلسے کئے ہر جلسے میں سامعین کی شرکت ایسی رہی کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی نہ ہی مستقبل قریب میں یہ ریکارڈ ٹوٹنے کا امکان نظر آتا ہے‘ اگر یہ ریکارڈ توڑا گیا تو بھی عمران خان ہی اپنا بنایا ریکارڈ توڑ سکے گا۔ عمران خاں نے 25مئی یعنی جمعرات کے دن سے نئے انتخابات کا مطالبہ لے کر تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے‘ وہ تیس لاکھ لوگوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچنا چاہ رہا ہے‘ جس طرح اور بے ساختہ پوری قومی خصوصاً نوجوان خواتین و حضرات اس کی آواز پر لبیک کہہ رہے‘10مئی کے احتجاج اور جلسوں میں شرکا کا جوش و خروش بتا رہا ہے کہ پرامن ماحول میسر ہو جیسا کہ عمران خاں نے مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا تو تیس لاکھ لوگ واقعی پہنچ سکتے ہیں لیکن اسلام آباد اس کی سڑکیں اور میدان اتنے لوگوں کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔گھبرائی ہوئی کمزور حکومت‘ عمران خاں کی طرح کھلے دل سے ان کے احتجاج قبول نہیں کر سکتی۔ 1۔ عمران خاں کی مقبولیت‘ لوگوں کی احتجاج میں شرکت‘ جوش و خروش کی یہ منفرد مثال ہے‘اس سے پہلے ایسا بے ساختہ‘وسیع اور پرامن احتجاج کبھی دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ اس کے بارے میں کبھی سنا بھی نہیں‘پاکستان میں بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اور ایران میں شاہ ایران کے خلاف امام خمینی کا انقلاب غیر معمولی واقعات ہیں لیکن ان دونوں واقعات میں شرکاء کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی نہ ہی وہ حالیہ واقعات کی وسعت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔پاکستان کے ہر شہر‘ دیہات اور قصبے میں کروڑوں کی تعداد میں لوگ نکل اٹھے ہر طرف رنگا رنگ میلے کا سماں تھا‘مسلم دنیا کے ساتھ سارے یورپ‘ امریکہ‘ آسٹریلیا ‘ نیوزی لینڈ‘ جاپان‘ صومالیہ‘ جنوبی افریقہ جیسے ملکوں کے ہر شہر میں پاکستانیوں اور ان کے ساتھ مقامی لوگوں نے پرامن احتجاج میں شرکت کی‘ان کا جوش و جذبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ 2۔عمران خاں کی قیادت میں احتجاج کی کامیابی کا انحصار اسلام آباد پہنچنے سے زیادہ اس کی وسعت اور اثر پذیری پر ہے۔اس کی مثال ہم پی این اے کی تحریک اور ایوب خاں کے خلاف ہونے والے کامیاب احتجاج سے دے سکتے ہیں۔ان دونوں کامیاب تحریکوں کا رخ دارالحکومت اسلام آباد کی طرف نہیں تھا‘ بلکہ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا مرکز لاہور میں تھا او پاکستان کے چاروں صوبوں اور ہر شہر میں یکساں جلسے جلوس اور احتجاج کے روز مرہ معمول نے انتظامیہ کو تقسیم کر کے تھکا دیا بلکہ بے بس کر دیا تھا۔ اگرچہ عمران خاں کا رخ اسلام آباد کی طرف ہے لیکن حکومت یا انتظامیہ میں کوئی نئی سوچ اور الگ طرح کے انتظامات کا اشارہ نہیں ملتا۔حکومت پٹرول پمپ بند کر دے گی‘ ٹرانسپورٹر کو بسیں دینے سے منع کر دیا جائے گا‘ موٹر وے اور بڑی شاہراہیں سیل کر دی جائیں گی۔پشاور کی طرف سے اٹک کا پل بڑے بڑے کنٹینر لگا کر بند کر دیا جائے گا‘ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں گی‘ ہر طرح کی ٹریفک سائیکل تک گزرنے کا راستہ نہیں چھوڑا جائے گا‘ انٹر نیٹ سروس اور ٹیلی فون سروس بھی معطل ہو گی وہ کام جو عمران خاں کو کرنا ہی یعنی کاروبار حکومت کا چلنا ناممکن بنا دے وہ کام حکومت از خود کرنے جا رہی ہے۔پہیہ جام ہو گا سرکاری دفاتر بند رہیں گے‘ شاہراہوں پر ہو کا عالم ہو گا۔اگر حکومت یہ سب کرنے میں کامیاب ہو گی تو کراچی سے خیبر تک ہر شہر اور قصبے میں اتنے بڑے احتجاجی جلوس ہونگے جنہیں چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت‘ دنیا کے سب سے بڑے احتجاج کا سامنا کرنے جا رہی ہے۔اگر اس احتجاج کا فوری نتیجہ نہ نکلا اور اس کا دورانیہ ایک ہفتے سے زیادہ ہوا تو پاکستان کی سیاست‘ معیشت اور انتظامیہ جو نقصان ہو گا سو ہوگا۔یہ تحریک قیادت کے نہ چاہتے ہوئے بھی تشدد کی راہ اختیار کر سکتی ہے۔یہ تشدد حکمران، ممبران اسمبلی اور وزراء کے گھروں کا رخ کریگا۔تب اتحادی بھاگ کھڑے ہونگے اور…کچھ بدلنا ہو گا۔