جنگ کے بادل ابھی پوری طرح چھٹے نہیں ،بھارت کی چھیڑ چھاڑ جاری ہے ،لیکن حکومت اور اپوزیشن کے درمیان حالیہ جنگی ماحول کے دوران جو ہم آہنگی نظر آئی تھی وہ اب پھر عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے تو قومی اسمبلی میں منی فنانس بل کو بالکل اسی طرح منظور کرایا گیا جیسا کہ اب پارلیمنٹ میں وتیرہ بن چکا ہے ۔ اپوزیشن کی ترامیم کو شامل کیے بغیر اسے منظور کرا لیا گیا ۔ ایوان میں دستاویزات کے پرزے اسی طرح اڑائے گئے جیسا کہ گزشتہ برس بجٹ کی منظوری کے موقع پر تحریک انصاف کے ارکان نے اڑائے تھے بلکہ وہ حکومتی ارکان سے دست وگریبان ہونے کو بھی تیار تھے ۔وزیر خزانہ اسد عمر کی پلیٹ پاکستان کو درپیش گوناگو ںاقتصادی مسائل سے بھری پڑی ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی جماعت کی روایت کے مطابق فقرے بازی سے باز نہیںرہ سکے۔انھیں یہ اعتراض تھا کہ بلاول بھٹو نے انگریزی میں تقریر کیوں کی ان کا کہنا تھا کہ ان کی چوری باہر چھپی ہوئی ہے، ان کو بتانے کے لیے اپنا بیانیہ انگریزی میں دیا ۔اسد عمر نے یہ بھی کہا کہ زرداری قبیلہ بڑا غیور ہے معلوم نہیں کیوں بلاول، زرداری کہلوانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔اسی پر جواب آں غزل کے طور پر انھیں سننا پڑا کہ وہ یحییٰ خان کے دست راست جنرل عمر کے صاحبزادے ہیں ۔ ویسے بھی اس اجلاس میںوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی انگریزی میں تقریر کے بعد بلاول کی تقریر پر اعتراض خاصا بودا لگتا ہے۔ اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ اپوزیشن کو پڑ جانے کی روش کو دوبارہ شروع کرنے کی آشیرباد غالبا ً وزیراعظم سے ہی مل رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے فطری طور پر سندھ جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، تھرپارکر جا کر جو تقریر کی انھوں نے پیپلزپارٹی پر تو تنقید یقینا کرنا ہی تھی لیکن خان صا حب کو بھی اعتراض ہے کہ بلاول نے انگریزی میں تقریر کیوں کی اور یہ بھی کہا کہ بلاول پرچی لیڈر بن گیا ہے، نام زرداری سے تبدیل کرکے بھٹو بن گیا ہے ۔بلاول اور ان کے والد آصف زرداری کرپشن سے یوٹرن لے لیتے تو عدالت کے چکر اور نیب مقدمات نہ بھگت رہے ہوتے۔خان صاحب نے یہ بھی مشورہ دیا کہ انھیں بہت پہلے یوٹرن لے کر زرداری کو خیرباد کہہ دینا چاہیے تھا،یوٹرن لینا لیڈر کی شان ہے۔ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہونے کے ناتے سے بلاول کو بھٹو کہلانے کا پورا حق حا صل ہے۔ بلاول بھٹو نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ بزدل لوگ سامنے بات نہیں کرتے ،عمران خان کا لب ولہجہ اپوزیشن کے لیے ہی سخت ہوتا ہے ،کاش عمران خان کالعدم تنظیموں اور مودی کے لیے بھی یہی لہجہ اپنائیں، ایک اور ٹویٹ میں بلاول کا کہنا ہے کہ کابینہ ایک پیج پر نہیں ہے ۔اسد عمر نے میری تقریر کو ملک دشمن قرار دیا جبکہ وزیر خارجہ میری تقریر سے مکمل متفق تھے ،شاہ محمود قریشی نے بھی انگریزی میں تقریر کی اسد عمر کیسے غیرت پر لیکچر دے سکتے ہیں؟۔ بدقسمتی سے سیاسی اور ذاتی معاملات میں تفریق ختم ہوتی جا رہی ہے ۔بلاول بھٹو کو بھی یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ اسد عمر کس کے صاحبزادے ہیں اور اسد عمر کو ان کی کارکردگی کے ریکارڈ پر جانچنا چاہیے تھا نہ کہ ان کے والد مرحوم کے حوالے سے جن کا شمار یحییٰ خان کے ان قریبی ساتھی جرنیلوں میںکیا جاتا ہے جن کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا۔ باقی رہا پارلیمنٹ میں کون اردو ،انگریزی ،سندھی اور بلوچی میں تقریر کرتا ہے ،اس پر اعتراض بے معنی ہے۔ بلاول بھٹو ہیں یا زرداری ، عمران خان ہیںیا نیازی ۔ کیا پاکستان کی چوٹی کی لیڈر شپ کے لیے صرف یہی مسائل رہ گئے ہیں؟ ۔ اس وقت عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ پاکستان نے حالیہ راؤنڈ میں بھارت کو سبق سکھا دیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دو متحارب ایٹمی طاقتوں کے درمیان پچاس برس بعد عسکری پنجہ آزمائی کے محرکات سے یکسر صرف نظر برتا جائے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو غالبا ً موجودہ نازک اور پیچیدہ صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں،انہوں نے اسی بنا پر اپنی انگریزی میں کی گئی تقریر میں بجا طور پر اپوزیشن کو پیشکش کی کہ خارجہ امور پر مل کر حکمت عملی بنائیں ۔دوسری طرف اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پارلیمنٹ پر زور دیاکہ خواتین کی تعلیم اور تحفظ کے حوالے سے اتفاق رائے سے پالیسیاں بنائی جائیں۔ اتفاق رائے جمہوریت کا خاصا ہوتا ہے اور جتنی اس کی آج پاکستان میں ضرورت ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی ۔وہی مغربی اخبار اور تجزیہ کار جو بھارت کی پاکستان کے ساتھ حالیہ چپقلش میں غلط بیانی اور میڈیا پر جنگجوانہ ماحول پیداکرنے اور دھمکی آمیز رویئے کی مذمت کر رہا ہے ،دونوں ملکوںکے درمیان بالآخر ایٹمی جنگ چھڑ جانے اور اس کے مضمرات وخطرات کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارت کو اپنی ضد اور انا چھوڑکر مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے بات چیت کرنی چاہیے ۔پلوامہ واقعے کے بعد برصغیر میں خطرات اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ دنیا کوبالآخر یہ احساس ہوتا جا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیے بغیر خطے میں امن نہیں ہو سکتا ۔اس کے ساتھ ہی ایف اے ٹی ایف پاکستان پر پابندیاں لگانے کے لیے کوشاں ہے اور امریکہ سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چین کے سوا تمام مستقل ارکان پاکستان پر زور دے رہے ہیں کہ اس کی سرزمین استعمال کرنے والے جہادی گروپوں پر پابندی لگائی جائے اور حکومت بعداز خرابی بسیار ایسا کر بھی رہی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام اور فوج نے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے بیش بہا قربانیاں دی ہیں تاہم ان قربانیوں کا صلہ تب ہی ملے گا جب دنیا بھارتی پراپیگنڈے کا شکار ہونے کے بجائے پاکستان کوامن کا گہوارہ سمجھے گی۔ جیسا کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی جیسے تجربہ کار، سمجھدار اور معاملہ فہم سیاستدان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے تعاون کے بغیر یہ بیل منڈے نہیں چڑھ سکتی ۔پاکستان ،خود حکومت اور وزیرخزانہ کی بقا اور ساکھ کے لیے بھی وطن عزیز کو درپیش سنگین اقتصادی مسائل سے نکالنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم کشکول لیے دنیا بھر سے کم از کم بیس ارب ڈالر قرضہ اکٹھا کرتے پھر رہے ہیں ۔پاکستان کی تاریخ میں آئی ایم ایف کے سب سے بڑے بارہ ارب ڈالر کے پیکج کے لیے بات ہو رہی ہے ۔تحریک انصاف جب اپوزیشن میں تھی تو بجا طو رپر اس وقت کی حکومت پر نکتہ چینی کرتی تھی کہ ملک کے بال بال کو قرضے میں جکڑ کر رکھ دیا گیا ۔ اگر اس قرضے اور نئے قرضوں کو ملا لیا جائے تو یہ صرف اسی صورت واپس ہو سکتے ہیںجب پاکستانی معیشت کا جام پہیہ چلے گا ،اسی میں پاکستان کی بقا ہے کیونکہ ایٹمی طاقت، بڑی باصلاحیت اور پروفیشنل فوج ہونے کے باوجود مضبوط اقتصادی بنیاد کے بغیر وطن عزیز کو بیرونی خطرات لا حق رہیں گے ۔اگر حکومتی زعما اسی بنیادی نکتے کو سمجھ کر بنیادی پالیسی معاملات پر اتفاق رائے کر لیں تو ان کا ملک اور قوم پر بہت بڑا احسان ہو گا ۔ اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ڈبیٹ اور اختلاف رائے شائستہ بنیادوں پر ہو اور مخاصمت کوذاتی عناد میں تبدیل نہ ہونے دیا جائے۔