بھارت میں سکھوں کے خلاف ریاستی آپریشن کے 35سال مکمل ہونے پر گولڈن ٹیمپل کے گردونواح میں پولیس اور سکھ مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ آپریشن بلیو اسٹار میں ہلاک ہونے والے سکھوں کی 35ویں برسی کے موقع پر گولڈن ٹیمپل میں سکھوں اور پولیس کے درمیان تصادم سے درجنوں شہری زخمی ہو گئے ہیں جب کے بھارتی پنجاب میں سخت سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ امرتسر سمیت سکھوں کی اکثریت والے ہر ضلع میں تقریبات اور مظاہرے ہوئے اورخالصتان کامطالبہ دہراتے ہوئے بھارت کے ریاستی جبرکے خلاف صدائے احتجاج بلندکیا۔واضح رہے کہ بھارتی فوج نے سکھوں کے خلاف اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے حکم پرآپریشن بلیوسٹارکے نام سے ایک فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا جو دو مرحلے میں 8جون کو مکمل ہوا۔پہلے مرحلے میں گولڈن ٹیمپل کے مسلح سکھ محافظوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کیا گیا جس کے بعد آپریشن کا دائرہ کار پورے پنجاب تک وسیع کیا گیا اور بھارت مخالف عزائم رکھنے کا الزام لگا کر سکھوں کو قتل اور گرفتار کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس آپریشن میں 500سکھ فریڈیم فائیٹر جبکہ4ہزار کے قریب شہری قتل ہوئے تھے۔ سکھوں کاکہناہے کہ سِکھ قوم کا محفوظ مستقبل صرف خالصتان میں پنہاں ہے ۔ 6 جون 1984ء کا دِن سِکھ قوم کی تاریخ میں ایک انتہائی المناک اور پراذیت دِن مانا جاتا ہے ۔ اِس دِن سِکھوں کے سب سے بڑے مذہبی مقام سری دربار صاحب’’گولڈن ٹمپل‘‘کو بھارتی فوج نے اپنی جارحیت نشانہ بنایا تھا۔ امرتسرمیں واقع سکھوں کے سب سے اہم مذہبی مقام دربارصاحب’’ گولڈن ٹیمپل‘‘ پربھارت کے جارحانہ فوجی آپریشن ’’بلیوسٹار‘‘کے دن کویادکرتے ہوئے بدترین فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہوئی تباہی کے زخموں کوسکھ کبھی نہیں بھول سکتے ۔اس حقیقت میں کوئی جھول نہیں کہ ایک مدت گزرنے کے باوجوداس کا درد و کرب سکھ خاص طورپرہمیشہ محسوس کرتے ہیں۔ دنیا کی بڑی جمہوریت کاجھوٹا دعویٰ کرنے والا بھارت مسلمانوں اورسکھوں سمیت اقلیتوں کا وجود برداشت نہیں کرپا رہا ہے اور وہ آج بھی اسی طرح ستائے جارہے ہیں۔ بھارتی سرکار چاہے سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے کانگریس ہو یا ہندوتوا کے پرچارک زعفرانی بریگیڈ، ہر ایک نے مسلمانوں، سکھوں، دلتوں اور مسیحیوںکو پشت بہ دیوار کردیا ہے۔لیکن ظلم وبربریت اور سفاکیت کا یہ ننگا ناچ کسی بھی مہذب اور جمہوری سماج کے لیے نیگ شگون نہیں ہوسکتا۔اس میں کوئی شک نہیںکہ گولڈن ٹیمپل پر آپریشن بلیوسٹار ایسے دردناک اور وحشت ناک واقعہ تھاکہ جوسکھوں کوبھارت سے آزادی اوراپنے لئے الگ وطن ’’خالصتان‘‘کے حصول کے لئے جنگ لڑنے پر حوصلہ اور ہمت دیتارہے گا۔ گولڈن ٹیمپل پر ہولناک لشکر کشی کے دوران ٹیمپل کمپلیکس میں سکھوں کے ایک لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے ڈیرے جمائے ہوئے تھے ۔ بھارتی فوج نے بھاری توپخانے اور ٹینکوں سے گولڈن ٹیمپل پر حملہ کر دیا۔گولڈن ٹیمپل میں پانچ دن تک خون خرابہ ہوتا رہا اور جرنیل سنگھ بھنڈراوالہ اور ان کے بہت سے ساتھی اورعام سویلین سکھ جن کی تعداد500بتائی جاتی ہے، مارے گئے۔سکھوں کی ہلاکتوں کے بعد پورے مشرقی پنجاب میں ہر طرف سوگ تھا۔ غم وغصہ تھا یہ غصہ گولڈن ٹیمپل پرحملے کے چھ ماہ بعد اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی پر نکلا جنہیں ان کے ہی دوسکھ محافظوں نے گولیاں مار کر ہلاک کیا اور گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کا بدلہ لیا۔ اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد پورے ملک خصوصا دلی میں سکھ مخالف مظاہرے ہوئے جس میں تین ہزار سے زائدسکھ ہلاک کر دیے گئے۔جبکہ 2012 ء میں اس آپریشن کی بازگشت ایک مرتبہ پھر لندن میں سنی گئی جب چند سکھ نوجوانوں نے جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی، انڈین فوج کے لیفٹیننٹ جنرل کلدیپ سنگھ برار پر انکی ریٹارئمنٹ کے بعدچاقو سے اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہوٹل واپس آ رہے تھے۔ کلدیپ سنگھ برار آپریشن بلیو سٹار کے کمانڈنگ آفیسر تھے اور انہیں اس آپریشن کا آرکیٹکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ جنرل کلدیپ سنگھ برار کی گردن پر ایک گہرا زخم آیا لیکن وہ جان لیوا ثابت نہ ہوا۔ یہ تاریخ کاباضابطہ حصہ ہے کہ تقسیم برصغیرکے وقت قائداعظم نے سکھوں کی قیادت کوپیش کش کی تھی کہ وہ پاکستان میں شمولیت اختیار کرلیں تو انہیں مشرقی پنجاب میں ایک ملحقہ آزاد ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ یہ پیش کش بڑی حکمت پر مبنی تھی، اگر سکھ لیڈر سردا ربلدیوسنگھ اور ماسٹر تاراسنگھ اسے تسلیم کرلیتے تو نہ مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کو مغربی پنجاب کی طرف دھکیلا جاتا، نہ مغربی پنجاب سے سکھوں کو یکایک بھاگ کر مشرقی پنجاب میں پناہ لیناپڑتی اور1947ء میں وحشت کا وہ طوفان نہ امنڈ آتا جس نے انسانوں کودرندہ بنادیا۔ انتقالِ آبادی اگر ہوتا توکئی سالوں میں آہستہ آہستہ اپنی مرضی اورمنشا کے ساتھ ہوتا۔ کسی کو کوئی پریشانی نہ ہوتی۔ مزید یہ کہ پاکستان کی حامی سکھ ریاست بھارت کے راستے میں ایک دیوار بن جاتی۔ کانگریسی لیڈروں نے سکھوں کو اس امرکایقین دلایاکہ مشرقی پنجاب میں اگر مسلمان اسی طرح آباد رہے تو سکھ ریاست قائم نہیں ہوسکے گی۔ آزاد ریاست سکھوں کی واضح اکثریت کی بنیاد پر ہی قائم ہوسکتی ہے۔ چنانچہ سکھوں کے مسلح دستوںنے ہندئووں کی راشٹریہ سیوک سنگھ کے جھتوں،بھارتی پولیس اورفوج سے مل کرمسلمانوںکونشانہ بنایا۔ پٹیالہ، کپورتھلہ، جالندھر اورلدھیانہ سے لے کر فیرو ز پور تک ہر جگہ مسلمانوں پرقیامت ڈھائی گئی۔اس وحشت ناکی اورخون آشامی کے دوران جب مسلمانوں کی مملکت پاکستان وجومیں آیاتوسکھ خوش تھے کہ انہیں انڈین یونین میں اپنی آزادر یاست ملے گی۔ مگراب مکافاتِ عمل کادور شروع ہوچکاتھا۔ قدرت نے سکھوں کو انہی کم ظرف اوربدبخت ہندونیتائوں کے ہاتھوں ذلیل کرنا شروع کیا، جن کے کہنے پر انہوںنے مسلم لیگ سے ایک باعزت میثاق نامے کو ٹھکراکر لاکھوں مسلمانوں کو خون میں ڈبودیاتھا۔ سالہاسال تک سکھوںنے پوری کوشش کی کہ وہ بھارت ماتا کے وفادار شہری ہونے کا ثبوت دے کرہندونیتائوں کواتنا ممنون کریں کہ وہ انہیں ایک الگ ریاست ہنسی خوشی دے دیں۔ جو بات بانی پاکستان نے سکھوں کو سمجھائی تھی، وہ سکھوں کو تین عشروں کی تذلیل کے بعد سمجھ آئی اور 1984ء میں وہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی قیادت میں اپنے حقوق کے لیے کانگریسی حکومت کے سامنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مگر جواب میں اندراگاندھی نے آپریشن بلیواسٹار شروع کرایااورایک ہولناک لشکر کشی کے ساتھ سکھوں کے اہم مذہبی مقام دربار صاحب امرتسر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ہزاروں سکھ قتل، ہزاروں گرفتاراورہزاروں لاپتہ ہوئے۔ اس دن سکھوں کی آنکھیں کھلیں اورانہیں اندازہ ہواکہ وہ واقعی بہت بھولے ہیں۔ انہیں بات بہت دیر سے سمجھ آتی ہے۔ اب انہوںنے طے کرلیا کہ وہ آزادخالصتان بناکردم لیں گے۔