سب جانتے ہیں، امریکہ بھارت کو خطے میں چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کا چین کی طرف جھکائو بھی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔چنانچہ کلیدی مسائل کے حل کے بغیر ہی امریکہ پاک بھارت تعلقات نارمل کرنا چاہتا ہے۔ تاہم پاکستان کی دفاعی پالیسی تاریخی خدشات کی بناء پر روزِ اول سے ہی بھارت پر مرکوز رہی ہے۔ پاکستان کی اسی ’انڈیا سینٹرک ‘ پالیسی کا نتیجہ تھا کہ افغانستان پر قبضے کی امریکی کوشش میں کلیدی اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کچھ افغان طالبا ن گروہوں کے خلاف یکسوئی کے ساتھ کاروائی سے کتراتا رہا ۔ اسی پالیسی سے ’اچھے اور بُرے طالبان‘ کے تصور نے جنم لیا،اور اسی کو پاکستان کی دوغلی پالیسی قرار دیتے ہوئے اس سے با ربار ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں امریکہ میں ہیں۔ پے در پے واقعات کا تسلسل مگر ظاہر کرتا ہے کہ امریکی سرکاری سوچ تاریخی طور پر حکمت اور دانش سے بالعموم عاری رہی ہے۔چنانچہ امریکی اسٹیبلشمنٹ محض چین کی سرکوبی ہی نہیں،افغانستان میں اپنی جانشینی کے لئے بھی بھارتی کردار کی خواہشمند رہی ہے۔بھارتی یکسوئی کی خاطر ضروری سمجھا گیا کہ پاکستانی فوج کو کمزور کیا جائے۔اکیسویں صدی کے آغاز میں فیصلہ ہوا کہ کسی جنگ میں الجھے بغیر محض نفسیاتی اور اعصابی حربوں کے ذریعے پاکستان کو دبائو میں لاتے ہوئے اس کے اداروں کو کمزور کیا جائے۔ کئی برسوں تک جعلی جرائد، ٹی وی چینلز اور اخبارات کی مدد سے ڈس انفورمیشن اور فیک نیوز نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان اور چین کو جمہوریت ، سویلین بالادستی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بدنام کیا جاتا رہا۔پاکستان کے اندراس دوران نوزائیدہ الیکٹرانک میڈیا جڑیں پکڑ چکا تھا۔چنانچہ ابتدائی دور میں فوجی حکومت کی آڑ میں اور بعد ازاں کھلم کھلا،سلامتی کے اداروں پر تنقید کی بناء پر راتوں رات شہرت پانے والے کئی خو درو ’میڈیا سٹارز‘ ہاتھوں ہاتھ بکنے لگے۔دہشت گردی کی جنگ میں ’ڈو مور‘ اوراس کے بعد، سویلین بالادستی، انسانی حقوق اور آزادی اظہارِ رائے جیسے حیلوں بہانوں سے سلامتی کے اداروں کو دبائو میں رکھنے کا سلسلہ ہر گزرتے دن زور پکڑتاچلا گیا ۔ سال 2013ء میں غیر معمولی مقبولیت پاکر سیاسی منظر نامے کو تہہ و بالا کر دینے والے عمران خان جہاں دو بڑے سیاسی خاندانوںکے وجود کے لئے خطرہ بن کر ابھرے تو وہیں چاروں طرف سے گھری ہوئی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ۔اس دور کے وزیرِ اعظم اور ان کے چند عقابی وزیروں اور مشیروں کے تیزابی بیانات کے علاوہ میڈیا سے وابستہ نوخیزمگر اکثر نیم خواندہ خواتین و حضرات دن رات سلامتی کے اداروں کو سویلین بالا دستی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بدنام کرتے رہتے۔ سوشل میڈیا کے ظہور کے ساتھ ہی اِن عناصر کے ہاتھوں سلامتی کے اداروں کے خلاف مہم جوئی کے لئے ایک نیا ہتھیا ر دستیاب ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر کئی منظم نیٹ ورک وجود میں آگئے اور چھوٹے بڑے سیاستدان بھی ان کا حصہ بنتے چلے گئے۔ پاکستان کے خلاف معاندانہ پراپیگنڈے کے لئے اکثر اکائونٹس غیر ملکی دارالحکومتوں سے چلتے ۔ پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکوں سے وابستہ عناصر کے انسانی حقوق ان کا خاص موضوع ہوتے۔ اسی دور میں نقشوں اور چارٹوں کی مدد سے بتایا گیاکہ ان تمام سرگرمیوں میں ملوث ملکی اور غیر ملکی عناصر پاکستان کے خلاف برپا ’ ففتھ جنریشن وار‘ کا حصہ ہیں۔ سال2014 ء کے دھرنے کے بعد عمران خان اور سلامتی کے اداروں میں خوب گاڑھی چھننے لگی۔ تاہم ڈرون حملوں اور افغانستان میں امریکی کاروائیوں پرعمران خان کے بیانات کو لے کرامریکی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میںپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے عمران خان کا حکومت میں آنا نیک شگون نہیں تھا۔چنانچہ پاکستان کے اندر اور باہر وہ تمام عناصرجو اداروں کے خلاف پہلے سے جاری مہم(مبینہ ففتھ جنریشن وار) کا حصہ تھے، اب سلامتی کے اداروں کے ساتھ ساتھ عمران خان کے خلاف بھی کھڑے ہو گئے۔’ریاستِ مدینہ‘ کا بار بار تذکرہ مغرب زدہ لبرلز کو مزید برانگیختہ کرتا۔ چنانچہ بیرونی طاقتوں کے ایماء پر حسین حقانی نیٹ ورک، جبکہ اندرونِ ملک ایک خاص گروہ سے وابستہ وکلاء رہنماء ، کچھ میڈیا گروپس اور ان سے وابستہ مخصوص صحافی،مرکز گریز سیاسی عناصر،’سلیکٹڈ اور سلیکٹرز‘ کو آڑے ہاتھوں لینے لگے۔اپنی عدالتی نااہلی کے بعد جب باپ بیٹی نے’ اچھے ججوں ‘ کے مقابلے میں ’ناپسندیدہ ججوں‘ کے خلاف مہم برپا کی ،جبکہ بعد ازاں عسکری قیادت کو نام لے لے کر سر عام آڑے ہاتھوں لینا شروع کیا گیا تو سویلین بالا دستی اور انسانی حقوق کے پھریرے لہرانے والے تمام عناصربغلیں بجاتے ان دونوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ میڈیا پربندشوں، صحافیوں پرپابندیوں، تشدد اور بر طرفیوں، سیاسی رہنمائو ں پر مقدمات او ر انتقامی کاروائیوں کو لے کر ایک طوفان برپاکئے رکھا گیا۔ مہنگائی ، بری گورننس اور ناکام خارجہ پالیسی پر صرف عمران حکومت ہی نہیں ، اسے’ لانے والوں ‘کی بھی خوب درگت بنائی جاتی۔ آئی ایم ایف ڈیل اور اس کے نتیجے میں کڑے فیصلوں کو’ عوام دشمنی ‘کا نام دیا جاتا۔ عہد و پیماں ہوئے کہ’ غیر سیاسی قوتوں ‘سے مل کرمنتخب وزرائے اعظم کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنا جائے گا۔ سال 2021 ء کے آخری مہینوں میں حالات نے جو پلٹا کھایا تو بیرونی مہرے بھی حرکت میں آگئے۔سب عہد و پیماں ہوا میں تحلیل ہو گئے۔کس طرح ارکان اسمبلی کو سندھ ہائوس میں رکھا گیا اور کیسے اتحادی ٹوٹے، حالیہ واقعات کا تسلسل اب ہماری ناقابلِ رشک سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ گزشتہ چار ساڑھے چار ماہ کے اندر معیشت کی زبوں حالی طشت از بام ہے۔ مہنگائی کا پچھلے پچاس سال کا ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔ خارجہ محاذ پر پراسرار خاموشی ہے۔ہمیں نہیں معلوم چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ’low profile‘ کیوں دکھائی دے رہے ہیں ۔ ہمارے ’پنجاب سپیڈ‘ والے وزیرِ اعظم نے آخری بار کب چین کا دورہ کیا، کیا کسی کو یاد ہے؟پاکستانی لبرلز کا ترجمان انگریزی اخبار جو کل تک آئی ایم ایف ڈیل کے نتیجے میں کئے گئے فیصلوںکو ’عوام دشمن ‘ فیصلے کہتاتھا ،اب اسی ڈیل کی ایک قسط کے اجراء پر اپنے اداریوں میں وزیر خزانہ کی بلائیں لے رہا ہے۔ممتاز معاشی دانشور ڈاکٹر اشفاق حسن خان بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ گذشتہ چار ساڑھے چار ماہ کے اندر ملکی معیشت کویہاں تک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پہنچایا گیا ہے۔دوسری طرف عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر دہشت گردی سمیت درجنوں مقدمات قائم ہیں۔نااہلی کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔آزادی اظہار رائے پر پابندیوں، صحافیوں پر مقدمات اور مار پیٹ نے خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔افراتفری، جبر اور بے یقینی کے اس دور میںالیکٹرانک میڈیا کی پیداوار نیم خواندہ ’میڈیا سٹارز‘ کے رویے پر تو ہمیںکوئی حیرانگی نہیں ،انسانی حقوق کے علمبردار جمہوریت پسندلبرل دانشوروں کے بے لباس ہونے پر تاسف ضرور ہے۔ اس بیچ ہمیں نہیں معلوم کہ ففتھ جنریشن جنگ اب بھی چل رہی ہے یا کسی مقام پر رُکی ہوئی ہے۔