معزز قارئین! پرسوں (5 فروری کو) آزاد کشمیر اور پاکستان سمیت دُنیا بھر کے کشمیریوں اور پاکستانیوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی غلامی کی زنجیریں توڑنے کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں سے یکجہتی اور اُنہیں حق ِ خود ارادیت دلانے کے لئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے حسب روایت ’’یوم یکجہتی ٔ کشمیر ‘‘منایا اور کئی مقامات پر تو ، اِنسانی ہاتھوں کی زنجیر بھی بنائی گئی۔ اِس موقع پر صدرِ پاکستان جناب عارف اُلرحمن علوی نے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے بھارت سے آٹھ مطالبات بھی کئے، جن میں مقبوضہ کشمیر کے سیاسی قیدیوں کی رہائی، اُنہیں آزادیٔ اظہار کی اجازت دینے اور نہتے کشمیریوں پر آتشیں اسلحہ کا استعمال بند کرنے کا مطالبہ بھی کِیا گیا۔ صدرِ پاکستان نے بھارت سے یہ بھی مطالبہ کِیا کہ ’’وہ مقبوضہ کشمیر کے قائدین کو، اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لئے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے ، اِنسانی حقوق کے مبصرین کے لئے مقبوضہ کشمیر کے راستے کھولے جائیں ، تاکہ وہ خُود جا کر مقبوضہ کشمیر میں دیکھ سکیں اور بھارت عالمی سوشل میڈیا کے لئے کشمیر کے رابطے بھی کھولے ‘‘۔ صدرِ پاکستان نے بھارت کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’ کشمیر کے بارے میں فیصلہ کرنا صِرف کشمیریوں کا حق ہے اور اُس کے مستقبل کا فیصلہ بھی صِرف کشمیریوں کو ہی کرنا ہے۔ بھارت جتنی کوششیں کرلے کشمیریوں کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا کیونکہ ظلم کا شکار کشمیری عوام اپنی تاریخ رقم کرتے جا رہے ہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی اپنے "Tweet" میں کہا کہ ’’ مسئلہ کشمیر 1948ء سے اقوام متحدہ کا حل طلب مسئلہ ہے، قابض بھارتی فوج کا ظلم وستم کشمیریوں کو نہیں دبا سکا، جدوجہد آزادی مزید مضبوط ہو رہی ہے اور پُر عزم کشمیری اپنا حق لینے میں ضرور کامیاب ہوں گے‘‘۔ وزیراعظم عمران خان اور مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین نے بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد کی حمایت میں بیانات جاری کئے ہیں ، کئی شہروں میں ریلیوں اور عوامی جلسوں کا اہتمام کِیا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں ’’چیئرمین حریت کانفرنس ‘‘سیّد علی گیلانی صاحب نے ’’ یوم یکجہتی ٔ کشمیر ‘‘ منانے کے لئے پاکستان، آزاد کشمیر اور بیرونِ ممالک بود و باش رکھنے والے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کِیا ہے جنہوں نے اِس موقع پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں احتجاجی ریلیاں ، جلسے جلوسوں اور کانفرنسوں کا اہتمام کِیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’’ برطانیہ کے داراُلعوام ( House of Commons) کے کانفرنس ہال میں منعقدہ ’’ کشمیر کانفرنس‘‘ میں بھارتی مظالم کی مذّمت کی قرارداد منظور کی گئی ۔ کانفرنس میں سِکھوں ، کشمیری راہنمائوں ، برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور ناروے کے سابق وزیراعظم نے بھی اجلاس میں شرکت کی ۔ لندن کی "Ten Downing Street" ۔ کے باہر ہزاروں افراد نے مظاہرہ کِیا ، برمنگھم سے لندن تک ریلیاں بھی نکالی گئیں۔ وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ بھارت کو ہر صورت کشمیر سے نکلنا ہوگا ، کشمیریوں کا حق کوئی چھین نہیں سکتا‘‘۔ آزاد ریاست جموں و کشمیر کے صدر جناب مسعود خان نے کہا کہ ’’ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا وقت قریب آگیا ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ جس طرح دُنیا بھر کے مختلف ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال 12 مئی کو "Mother's Day" اور 16 جون کو "Father`s Day" منایا جاتا ہے ۔ اُسی طرح مقبوضہ کشمیر / آزاد کشمیر اور پاکستانی عوام و خواص بھی سال میں ایک دِن 5 فروری کو ’’ یوم یکجہتی ٔ کشمیر ‘‘ بھی مناتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ ’’ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران وزیر خارجہ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہُوئے اعلان کِیا تھا کہ ’’ ہم ( یعنی۔ حکومت ِ پاکستان اور پاکستان کے عوام) کشمیریوں کی آزادی کے لئے ایک ہزار سال تک بھارت سے جنگ لڑیں گے‘‘۔ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہُوا تو 20 دسمبر 1971ء کو جنابِ بھٹو نے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدرِ پاکستان کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا ، پھر وزیراعظم منتخب ہُوئے ، بھٹو صاحب کے بعد جتنے بھی حکمران آئے اُنہوں نے وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدر آصف علی زرداری سمیت وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی بھارت سے دوستی کو ترجیح دِی۔9 ستمبر 2008ء کو منصبِ صدارت سنبھالتے کے فوراً بعد جنابِ آصف زرداری نے "Publicly" خود کلامی کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ کیوں نہ ہم مسئلہ کشمیر کو 30 سال تک "Freeze" (منجمد) کردیں؟‘‘ ۔ صدر زرداری نے امیر جمعیت عُلماء اسلام ( فضل اُلرحمن گروپ) کو پارلیمنٹ کی خصوصی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کردِیا۔ اُن کے بعد کشمیری نژاد وزیراعظم میاںنواز شریف نے بھی فضل اُلرحمن صاحب ہی کو خصوصی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنائے رکھا۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف کو وفاق اور پنجاب میں بھاری مینڈیٹ ملا تو، اُنہوں نے اعلان کِیا کہ ’’ میری مسلم لیگ (ن) کو بھارت سے تجارت اور دوستی کے لئے عوام نے ووٹ دئیے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے دوستی گانٹھ لی۔ 26 مئی 2014ء کو وزیراعظم نواز شریف ، شری نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کی تقریب حلف برداری پر دہلی پہنچے ۔ معراج رسول ؐ کی رات اُنہوں نے مودی جی سے "In Camera" ملاقات کی ۔ اگلے روز میڈیا پر خبر آئی کہ ’’وزیراعظم مودی نے وزیراعظم پاکستان کو "Man of the Peace" (مردِ امن) کا خطاب دِیا۔ 25 دسمبر 2015ء کو قائداعظمؒ کی سالگرہ اور خود اپنی سالگرہ کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی نواسی (مریم نواز کی بیٹی ) مہر اُلنساء کی رسم حناپر شری نریندر مودی جاتی امرا ( رائے ونڈ) میں مہمانِ خصوصی تھے۔ وزیراعظم پاکستان نے مودی جی کو اپنی والدہ محترمہ شمیم اختر صاحبہ المعروف ’’ آپی جی ‘‘ سے ملوایا ۔ اگلے روز میڈیا پر خبریں آئیں کہ ’’ آپی جی ‘‘ نے دونوں وزرائے اعظم سے کہا کہ ’’ مل کر رہو گے تو، خُوش رہو گے‘‘۔ مودی جی نے بھی سعادت مندی سے کہا کہ ’’ ماتا جی !۔ ہم اکٹھے ہی ہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ میرے خیال میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کی راہ میں پاکستان کے ہاتھوں میں سب سے بڑی زنجیر "S.A.A.R.C" (South Asian Association for Regional Cooperation) تنظیم ہے۔ سنسکرت زبان میں "Saarca" اور ہندی زبان میں "Saarc" خوشیاں بکھیرنے والے ، خوبصورت پتوںاور خُوشبو دار پھولوں والے درخت کو کہتے ہیں ۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب ’’ رامائن‘‘ کے مطابق سری لنکا کے راجا ’’ راون‘‘ نے ایودھیا کے راجکماراور وِشنو دیوتا کے اوتار ’’بھگوان رام‘‘ کی اہلیہ سیتا جیؔ کو اغواء کر کے لنکا میں(پھولوں کے باغ سارک ) "Ashoka Vatikaمیں نظر بند کِیا ، جِسے بعد میں ’’بھگوان رام‘‘ نے چھڑا لِیا تھا۔بھارت میں 268سے 232قبل از مسیح تک حکومت کرنے والے مہاراجا اشوک ۔ (Ashoka the Great) کی سلطنت میں شامل موجودہ بھارت، پاکستان ، بنگلہ دیش، بھوٹان ، مالدیپ، نیپال ، سری لنکا اور افغانستان ہی اب "S.A.A.R.C Organization"۔ کے ارکان ہیں۔ "S.A.A.R.C" تنظیم بنانے کا پہلا اجلاس نئی دہلی میں ہوا تھا۔ ہندوؔ سفارتکاروں کو داددینا پڑے گی کہ انہوں نے پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دوسرے 6 ملکوں کو چکر دے کر ’’علاقائی تعاون‘‘ کے نام پر کِس طرح "S.A.A.R.C" اور "Saarca Ashoka" کو زندہ کردِیا ۔ قواعد و ضوابط کے مطابق سارک سربراہی کانفرنس ، وزرائے خارجہ کانفرنس یا کسی اور کانفرنس میں صرف اقتصادی تعاون اور تجارت بڑھانے پر بات ہوسکتی ہے ، مسئلہ کشمیر ؔپر ہر گز نہیں‘‘۔ اب صورت یہ ہے کہ ’’ پاکستان "S.A.A.R.C" کے کسی اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر تو ، کوئی بات ہی نہیں کرسکتا ؟اور اقوام متحدہ پر امریکہ سمیت چند بڑے ملکوں کا قبضہ ہے تو ، پھر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی ایٹمی طاقت پاکستان کیا کرے ؟۔ اقوام متحدہ کے بارے میں ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کہتے ہیں … چند ملکوں نے بنایا ،سامراجِؔ مُک مُکا! بن گئی، اقوام ؔمتحدہ، سماجِ مُک مُکا! …O… تیسری دُنیا سے لیتے ہیں ،خراجِ ؔمُک مُکا! جاری و ساری یہ کیسا ہے ،رواجِ مُک مُکا! …O… کیجئے ہر سال چاہے، احتجاجِؔ مُک مُکا! حشر تک قائم رہے گا ، تخت و تاؔج مُک مُکا!