میں نے کہاں برطانیہ آنا جانا ہے‘ مگر ٹی وی پر یہ اعلان سن کر کہ برٹش ایئر ویز پاکستان کے لئے اپنی پروازیں شروع کر رہی ہے۔ ایک طرح کی مسرت ہوئی ہے۔ مجھے وہ دن یاد آ گئے جب کراچی کا ہوائی اڈہ اس علاقے میں فضائی پروازوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ایئر پورٹ تو بس مناسب سا تھا‘ بلکہ آج کے ایئر پورٹ کے مقابلے میں تو انتہائی بے وقعت تھا۔ ہم نے بڑے چائو سے کراچی کا ایئر پورٹ تعمیر کرنا شروع کیا اور اسے جدید فن تعمیر کے مطابق بنایا۔ اس میں 16=8+8پروازوں کی گنجائش رکھی۔ ہم اسے ڈبل کر کے بیک وقت 32پروازوں کے لئے توسیع دے سکتے تھے۔ مگر ہوا یہ کہ یہ 16پروازوں کی گنجائش بھی ضرورت سے زیادہ ثابت ہوئی۔ایئر پورٹ پر اکثر اوقات ویرانی برستی ہے۔ جب مشرقی پاکستان ہمارا حصہ تھا تو مشرق بعید جانے والی پروازیں کراچی رکنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ مشرقی بارڈر کے الگ ہونے کے باوجود بھی کراچی ایئر پورٹ بہت پررونق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے یہاں ایک عالمی معیار کا ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ دنیا کی ہر بڑی ایئر لائن کراچی سے گزرتی تھی۔ یہ جو برٹش ایئر ویز تھی‘ پہلے اس کا نام بی او اے سی تھا۔مجھے اس وقت یاد نہیں آ رہا کہ یہ کس کا مخفف تھا۔ تک بندی کر رہا ہوں۔ مگر مطمئن نہیں ہوں۔ ایک پان ایم تھی جو اس وقت امریکہ کی نمبر ایک ایئر لائن تھی۔ اب تو یہ بند ہو چکی ہے‘ اس کی جگہ نئی امریکی کمپنیوں نے لے لی ہے۔ پاکستان سے یہ سب رخصت ہوئیں۔ کے ایل ایم تھی ‘یورپ کی قابل فخر ایئر لائن جس سے پی آئی اے نے تربیت حاصل کی۔ سوئس ایئر لائن ‘ آسٹریلیا کی کنٹاس‘ آپ نام گنواتے جائیے۔ یہ سب یہاں موجود تھیں۔ ایئر فلپائن‘ ایئر فرانس حتیٰ کہ اردن کی قومی فضائی کمپنی ایک نہیں‘ پیرس ایئر لائن یہاں سے آپریٹ کرتی تھیں۔ وہ سب ایک ایک کر کے رخصت ہوئیں۔ یہ وہ دن تھے جب ہمیں اپنی قومی ایئر لائن پی آئی اے پر فخر بھی تھا اور اعتماد بھی۔ اس پی آئی اے نے کئی ایئر لائنوں کو اڑنا سکھایا۔ اس خطے کی سب سے نمایاں ایئر لائن کو امارات میں قائم کرنے میں بنیادی مدد ہم نے فراہم کی۔ ہمارے ہی دو طیاروں سے اس کا آغاز ہوا۔ پھر یہ دیکھتے دیکھتے دنیا پر چھا گئی اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔ یہ ایک ایسی داستان عبرت ہے جس پر ہم نے کبھی غور نہیں کیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لندن جانے کے لئے ہمارے لوگ پہلے دوبئی‘ ابوظہبی‘ قطر یا استنبول جاتے ہیں۔ وہاں سے لندن کی پرواز پکڑتے ہیں۔ امارات‘ اتحاد‘ قطر ایئر لائن‘ ٹرکش ایئر لائن سب دیکھتے دیکھتے فضائوں میں چھا گئیں۔ صرف برطانیہ براہ راست جانے کے لئے لوگ پی آئی اے میں سفر کرتے ہیں۔ برطانیہ میں بھی اس کے طیارے ہیتھرو سے زیادہ دوسرے ذیلی ہوائی اڈوں کو استعمال کرتے ہیں تاکہ پیسے بچائے جا سکیں۔ہمارا یہ حال ہے کہ ہم امریکہ کے لئے اپنا آپریشن مختصر کر رہے ہیں۔ روز سمٹتے جا رہے ہیں ہم نے اپنے ہاں کئی مقامی فضائی کمپنیوں کو اوپن سکائی کے نام پر پروازوں کی اجازت دی اور لاہور‘ اسلام آباد میں نئے ہوائی اڈے تعمیر کئے۔ مگر انہیں بھی آباد نہ کر سکے۔ کہاں ہوا بازی کے شعبے میں ہم اس خطے ہی میں سب سے آگے تھے۔ بلکہ دنیا میں بھی اہم مقام رکھتے تھے۔ ایک وہ دن تھے کہ ہم کہتے تھے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اسلام کے بعد صرف دو رابطے ہیں‘ ایک اردو زبان اور دوسرا پی آئی اے۔ ہمیں اس بات پر بھی فخر تھا کہ ہم نے چین کو جیٹ طیاروں سے متعارف کرایا۔ ہماری پروازیں جب چین جانا شروع ہوئیں تو یہ ایک بڑا واقعہ گنا گیا۔ یہ سب قصہ پارینہ ہے۔ ان دنوں تو اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی بیرون ملک بھی نہ رہتے تھے۔ ہم نے دنیا کے بعض ایئر پورٹوں کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہاں ہر منٹ میں ایک طیارہ اڑتا ہے۔ کئی بار یقین نہ آتا تھا۔ ابھی گزشتہ برس ترکی جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک شام استنبول ایئر پورٹ سے متصل ہم ایک ریستوران میں کھلے آسمان کے تلے بیٹھے تھے کہ میں نے وہاں اسی تسلسل کے ساتھ طیاروں کو اپنے سروں کے اوپر اڑتے دیکھا۔ ایک نہیں دنیا کے کئی ممالک میں یہ صورت حال ہے۔ ہم جس میدان میں ایک برتر مقام پر پہنچ چکے تھے‘ وہاں سے بھی مار کھا کر نکلے ہیں۔ ہوا بازی میں پاکستان نے ایک تاریخ رقم کی تھی۔ ہماری ایئر لائن بہت بڑی نہ تھی۔ مگر اپنی کارکردگی کے لحاظ سے یہ اپنا ایک مقام رکھتی تھی۔ ایک نہیں ہم نے کئی میدانوں میں بریک تھرو کیا’ مگر پھر سب ٹھپ کر کے رکھ دیا۔ مجھے یاد ہے فیصل آباد میں ہماری زرعی یونیورسٹی اور اس کے ساتھ وابستہ ایوب زرعی انسٹی ٹیوٹ عالمی شہرت کے حامل تھے۔ اب ایک نہیں کئی ادارے زراعت کے میدان میں کام کررہے ہیں مگر زراعت کی جو حالت ہے سب کے سامنے ہے۔ انجینئرنگ میں لاہور کی بیکو(جو قومیانے جانے کے بعد پیکو بنی) ہمارا ڈک یارڈ ‘ شپ یارڈ‘ ریلوے کی مغلپورہ کی ورکشاپ انجینئرنگ کے میدان میں سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے(میں نے احتیاطً اتفاق فائونڈری کا نام نہیں دیا) ہماری سمال ٹول فیکٹری اور ٹیکسلا میں ہیوی میکنیکل بننے کے بعد ہم یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ خاص کر سمال ٹول فیکٹری کو بہت اہمیت دی گئی۔ پھر کیا ہوا۔ مغل پورہ ورکشاپ بھی شاید باہر سے بنواتے ہیں یا اپنا وہ معیار بھول گئے ہیں جو ہم حاصل کر چکے تھے۔ ہم نے اپنی دفاعی ضروریات کے لئے بہت کچھ یہاں بنایا ہے۔ یہ سب ٹیکنالوجی سول مقاصد کے لئے بھی استعمال ہوتی تو بہت کچھ ہوسکتا تھا۔ آٹو موبائل انڈسٹری شروع تو ہوئی‘ مگر اسمبلنگ یونٹ بن کر رہ گئی۔ ہم آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے اور جس فیلڈ میں جاتے تھے‘ اس میں نام کماتے تھے سائنس کے کئی شعبوں میں ہم نے قابل قدر کام کیا تھا۔ پھر ایک دن یہ میدان میں پٹتے رہے ۔ایک زمانہ تھا کہ ہم نے سرکاری سطح پر مغربی اور مشرقی پاکستان میں صنعتی ترقی کے ادارے بنائے تھے جو قابل قدر انداز میں کام کر رہے تھے پھر کیا ہوا۔ اس کے سو طرح سے تجزیے ہو سکتے ہیں۔ ہزار انداز میں اس پر بات ہو سکتی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم ہر میدان میں خوبصورت آغاز کرنے کے بعد پیچھے کی طرف چل پڑتے ہیں۔ یہ اسٹیل ملزدیکھ لیجئے مجھے یاد ہے کہ جب بس پہلی بار یہاں گیا تو حیران رہ گیا۔ میلوں تک پھیلی سڑکیں اور ریلوے لائن‘ سمندر سے خام مال لاتی ہوئی خود کار پیکٹ اور اس کے ساتھ بائیس 22ڈائون سٹریم انڈسٹریز کی گنجائش۔ میں تو یہ سب دیکھ کر جھوم گیا اور اسے پاکستان کا صنعتی دارالحکومت قرار دے دیا۔ ڈائون سٹریم انڈسٹریز کا خواب تو ایک طرف اب تو یہ اسٹیل ملز ہی بند پڑی ہے اور ہم اسے فروخت تک نہیں کر پا رہے ۔لوہا باہر سے آتا ہے یا گڈانی میں جہاز توڑ توڑ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ کیا ترقی ہمیں راس نہیں آتی۔ میرے ذہن میں کئی شعبے آ رہے ہیں جس میں ہم بہت آگے نکل جاتے اس وقت میرا یہ کام نہیں کہ میں غلطیاں گنوائوں کہ کب کس نے کیا کیا۔ ہم نے من حیث القوم قومی ترقی پر توجہ ہی نہیں رکھی‘ اپنی ترقی ہی پر نظر رکھے رہے‘سیاسی جھگڑوں ہی میں الجھے رہے۔ آج ہم بھاشا ڈیم پر زور لگا رہے ہیں‘ مگر منگلا اور تربیلا بنانے کے بعد ہم کیسے اتراتے پھرتے تھے۔ سیاست نے ہمیں کالا باغ ڈیم بنانے ہی نہیں دیاتف ہے ہم پر‘ کوئی غیور قوم ہوتی تو کسی کو الٹی سیدھی تحریکیں چلانے یا ادارے تباہ کرنے کی اجازت ہی نہ دیتی۔ ہم نے سیاست کی تو بھی ملک کو تباہ کرنے کے لئے ملک کو تباہ کیا تو اس پر غور کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی کہ ہمارا کس قدر نقصان ہو گیا ہے۔ اللہ کرے برٹش ایئر ویز کی آمد ہمارے لئے نئے امکانات کو لے کر آئے۔ ہم ذرا سنبھلے تھے کہ سیاست نے دوبارہ ہمیں تباہ کر دیا۔ اب اگر نئے رستے کھل رہے ہیں تو اللہ کرے ہم منزل کی طرف رواں ہو سکیں۔