سوشل میڈیا میں سنجیدگی سے زیادہ غیر سنجیدگی کا راج ہے۔ سوشل میڈیا بہت بڑا میڈیا ہونے کے باوجود اپنی اس کمی کی وجہ وہ کردار ادا نہیں کرسکتا جس کردار کی موجودہ دور میں ہم سب کو بہت ضرورت ہے۔ اس بات کی اہمیت کو صرف ایک سینئر صحافی سمجھ سکتا ہے کہ کسی خبر کا فوری طور پر منظرعام پر آنا کیا ہوتا ہے؟ کسی قلمکار سے زیادہ اس حقیقت سے اور کون آشنا ہوسکتا ہے کہ اس کو ایسا میڈیا میسر ہو جس پر پابندی کا بھوت نہ لہراتا ہو۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے اور اس افسوس کو ہمارے سینئر رائٹرز بہت کم شیئر کرتے ہیں کہ وہ جس عالیشان آفس میں بیٹھے لکھتے ہیں اس میں نظر نہ آنے والا ایک بھوت بھی منڈلاتا ہے۔ اس بھوت کا نام ہے پالیسی۔ پالیسی کے اس بھوت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں ہمارے اہل قلم عالموں کی زندگی بیت جاتی ہے۔ سوشل میڈیا میں اگر ضروری سنجیدگی پیدا ہو جائے اور اگر سوشل میڈیا جھوٹی خبر کے نقص سے نجات حاصل کرلے تو یہ میڈیا بہت کچھ کر سکتا ہے۔ مگر اس صورت میں ہم اس میڈیا کے اس پہلو کو بہت مس کریں گے ؛جو پہلو ہمیں حالات کی سختی میں اگر ہنساتا نہیں تو کم از کم مسکرانے پر آمادہ ضرور کرتا ہے۔ اس زندگی میں اتنی سختی ہے کہ انسان مسکرانا بھول گیا ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے سنجیدگی کی کسی مصنوعی جیل کے قیدی بن گئے ہیں۔ اس وقت مجھے اس مغربی مصنف کا نام یاد نہیں آ رہا جس نے لکھا تھا کہ :کبھی کبھی قہقہہ وہ کام کرجاتا ہے جو تلوار نہیں کرسکتی۔ سوشل میڈیا ہمیں ہنسنے ہنسانے کی وجہ سے پسند بھی ہے اور ہم اس سے تقاضہ بھی کر رہے ہیں کہ وہ ذرا سنجیدگی اختیار کرے۔ اگر سوشل میڈیا بھی سنجیدہ ہو گیا تو پھر ہمیں کون ہنسائے گا؟ اس لیے میں زبان سے تو یہ بات کہتا ہوں کہ سوشل میڈیا کو اپنے آپ میں سنجیدگی پیدا کرنی چاہئے مگر دل ہی دل میں میری یہ دعا ہوتی ہے کہ کاش! ایسا نہ ہو۔ ہمارا روایتی میڈیا بہت سنجیدہ ہے اور اس قدر سنجیدہ میڈیا کو متوازن بنانے کے لیے سوشل میڈیا کو ذرا غیر سنجیدہ ہونا چاہئے۔ ہم جب پورے دن کے دوران سنجیدگی کے عذاب سے گذر کر ذرا سکون لینے کے لیے سوشل میڈیا کی کھڑکی کھولتے ہیں تو ہمیں وہاں سے آنے والی ہنسی کی ہوائیں اچھی لگتی ہیں۔اگر زندگی میں ذرا ہنسی خوشی نہ ہو تو پھر زندگی بہت بور ہو جاتی ہے۔ سوشل میڈیا میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جس قدر ہنسنے ہنسانے کا مواد میسر کرتا ہے اس کا وہ کردار ہماری زندگی اور ہمارے حالات میں کسی حد تک توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کی اہم بات یہ ہے کہ اس میڈیا کی اسٹیئرنگ کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ اس لیے یہ ایسا میڈیا ہے جیسے پلے لینڈ میں بچے ڈاجنگ کارچلاتے ہیں۔اس کھیل میں گاڑیاں چلتی ہیں اور گاڑیاں آپس میں ٹکراتی بھی ہیں مگر پھر بھی نقصان نہیں ہوتا۔ممکن ہے کہ کوئی اس بات کو بھی نقصان قرار دے کہ گاڑی تو چل رہی ہے مگر سفر طعہ نہیں ہو رہا ۔ منزل نہیں مل رہی ۔ مگر ہر سفر منزل کے لیے نہیں ہوناچاہئیے۔ کوئی سفر ایسا بھی ہو کہ ہماری جیسے ممالک کی حکومتوں کی طرح چلتا رہے مگر نہ گاڑی آگے بڑھے اور نہ پیچھے ہٹے۔ اس قسم کے سفر کا سامان ہمارے سوشل میڈیا پر وافر مقدار میں موجود ہے۔ سوشل میڈیا میں سخت پالیسی نہ ہونے کے باعث جو آزادی ہے وہ آزادی کبھی کبھی کسی کے لیے دل آزاری کا باعث بھی بن جاتی ہے لیکن اگر اس نقصان کو نظرانداز کیا جائے تو سوشل میڈیا اس قدر بھی برا نہیں جس قدر اس کو حکمران لوگ سمجھتے ہیں۔سوشل میڈیا میں اگر سنجیدگی پیدا ہوگئی تو یہ اس طرح کی صورتحال ہوگی جس طرح کوئی لطیفے سنانے اور ہنسانے والا دوست اچانک اپنی زندگی کے دکھ درد سنا کر ہمیں افسردہ بنائے۔ اس قسم کی صورتحال بہت بڑے نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ زندگی میں آنسوبھی ہوتے ہیں اور زندگی میں مسکراہٹ بھی ہوتی ہے۔ ہم صرف ایک طرف نہیں رہ سکتے۔ ہماری آنکھوں کے لیے کچھ آنسو بھی ضروری ہیں اور ہمارے ہونٹوں کے لیے چند مسکراہٹیں بھی چاہئیں۔ اس لیے میں سوشل میڈیا کا اس طرح سے مخالف نہیں ہوں جس طرح ہمارے بہت سارے دوست ہیں۔ وہ کہتے ہیں سوشل میڈیا نے ایک بے لگام آزادی کی بنیاد ڈالی ہے۔ اس آزادی کو آوارگی کہتے ہیں۔ یہ آوارگی اچھی نہیں۔ مگر پھر بھی کبھی کبھی اس آزادی کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس آزادی کے لیے علامہ اقبال نے کیا غضب کی بات لکھی تھی: ’’لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے‘‘ علامہ اقبال کا یہ شعر اس جنون کی کیفیت کا آئینہ دار ہے جس میں حقیقی عشق اپنا جلوہ دکھاتا ہے مگر ہم اس شعر کی معرفت زندگی میں پیدا ہونے والی سنجیدگی کی مقدار کم کرنے کے لیے جب سوشل میڈیا کے کردار پر سوچتے ہیں تو ہم بغیر کسی سبب کے مسکرانے لگتے ہیں۔اس میڈیا میں کبھی کبھی تو غیرسنجیدگی اخلاقیات کی بنیادی حدود سے بھی آگے نکل جاتی ہے مگر کبھی کبھی اس میڈیا میں ایسی بات بھی نظر آجاتی ہے کہ اس میڈیا پر آنے والا سارا غصہ ختم ہوجاتا ہے۔ یہ اس دن کی بات ہے جس دن آصف زرداری اپنے تحفظ کے لیے نیب کے دفتر کے گرد کچھ کارکن اور بہت سارے کرائے پر لائے گئے نعرے باز لیکر پہنچے کہ نیب پر ذرا دباؤ بڑھایا جائے۔ اب اس صورتحال میں نیب زرداری صاحب کے دباؤ میں آتا ہے یا نیب زرداری صاحب پر دباؤ بڑھاتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کی بات میں نے اس حوالے سے نہیں کی۔ سوشل میڈیا کی بات مجھے اس لیے یاد آئی کہ جس دن اسلام آباد میں جیالے اور پولیس کا تماشہ جاری تھا اس دن سندھ اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے جن ارکان کے نام منظر عام پر لائے گئے ان میں سب سے اہم اور مشہور نام دو تھے۔ ایک نام تھا اربوں روپیوں کی کرپشن کرنے کے جرم میں جیل میں رہنے والے اور شراب کو شہد میں تبدیل کرنے کا جادو دکھانے والے شرجیل میمن کا اور دوسرا نام تھا فریال تالپور کا۔ جب پی اے سی کے لیے ان ناموں کا اعلان ہوا تب شرجیل میمن کو بھی مشکل محسوس ہوا کہ اس حقیقت میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن بنیں۔ اس لیے اس نے نیب کے زیر حراست رہنے والے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے سامنے پی اے سی کی رکنیت سے استعفی پیش کیا مگر فریال تالپور نیب کی زیر تحقیق ہونے کے باوجوداپنے نئے عہدے پر قائم ہیں۔ سندھ اسمبلی کے اس نئے کارنامے پر سندھ کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو خاموش رہا مگر سوشل میڈیا پر کسی ظالم نے تبصرے کا ایک تیر چلایا۔ اس نے سائیں قائم علی شاہ کے حوالے سے یہ طنزیہ تبصرہ لکھا کہ ’’اگر آپ کے مطالبے پر سارے چور اور کرپٹ گرفتار کیے جائیں تو کیا ہم سندھ اسمبلی پر تالا لگائیں‘‘ اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو ایسا حقیقی؛ سچا اور کھرا لطیفہ ہمیں پڑھنے کو کہاں ملتا؟ سائیں قائم علی شاہ کے حوالے سے سندھ کا سوشل میڈیا ایسی باتیں پوسٹ کرتا ہے جن میں ہوتا تو ہنسی کا سامان ہے مگر وہ ہنسی تلخ حقیقت کا عکس بن کر ابھرتی ہے۔ ایسی ہنسی بری تو نہیں ہوتی۔ ایسی ہنسی کے بارے میں کوئی یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ سندھ کے بزرگ سیاستدان پر اس طرح طنز کسی کے لیے تکلیف کا باعث بھی بن سکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا والے جب بھی سائیں قائم علی شاہ کے بارے میں کوئی نیا لطیفہ میدان میں لاتے ہیں تو ان کا ٹارگٹ قائم علی شاہ صاحب نہیں ہوتے۔وہ سائیں قائم علی شاہ کی معرفت اپنے حال کی حقیقت پر ہنستے ہیں۔ کیا اپنے بے حال حال پر سندھ کے لوگوں کو ہنسنے کا بھی نہیں؟